سن انیسو باسٹھ میں گلوبلائزیشن یعنی عالمگیریت کی اصطلاح کے پہلی دفعہ استعمال سے لے کر اب تک اس کی مختلف طریقوں سے تشریح کی گئی ہے۔ معیشت کے ماہرین کے مطابق اکیسویں صدی میں اس اصطلاح کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہوا ہے۔ ماضی قریب میں ایسا کوئی اور لفظ ذہن میں نہیں آتا جس کو لوگوں نے اتنے مختلف معنی پہنائے ہوں۔ کچھ لوگ عالمگیریت کو نِروانا سے تشبیہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد عالمگیر امن اور خوشحالی لیتے ہیں جبکہ کچھ اور لوگوں کے نزدیک عالمگیریت کا مطلب افراتفری اور انتشار کے سوا کچھ اور نہیں۔
عالمگیریت: آلو کا حیرت انگیز سفر
لیکن عالمگیریت کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں عالمگیریت کا رجحان شدت اختیار کر گیا ہے اور اس کے مثبت اور منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ تہذیبوں اور معاشروں کے صدیوں پر پھیلے آپس میں تعلقات نے ایک عالمگیر انسانی گروہ کو جنم دیا ہے۔
عالمگیریت کی اصطلاح کےموجودہ استعمال سے ہزاروں سال قبل ہمارے آباواجداد دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل چکے تھے۔ دراصل وہ عمل جس کے ذریعہ انہوں نے ہجرت کی اور تمام براعظم میں بس گئے، عالمگیریت کے موجودہ عمل جیسا ہی تھا۔
دنیا کا پہلا گلوب
’آئیس ایج‘ کے اختتام پر سمندروں کی سطح میں اضافہ کی وجہ سے امریکہ اور یورپ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کے درمیان دوبارہ رابطہ چودہ سو بانوے میں ممکن ہوا جب کولمبس نے کیریبین کے ایک جزیرے پر قدم رکھا۔ اسی سال ایک جرمن جغرافیہ داں مارٹن بیہیم نے دنیا کی عکاسی کرنے والا پہلا ’گلوب‘ بنایا۔
اشیائے خرد و نوش کا تبادلہ
پیرو سے آلو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ میکسیکو کا مرچ اور مصالحہ تمام ایشیا میں مقبول عام ہےجبکہ ایتھوپیا کی کافی کی فصل اب برازیل سے لے کر ویتنام تک گھر گھر استعمال ہوتی ہے۔
امریکہ اور یورپ کے اس دوبارہ ملاپ کو عالمگیریت کی تاریخ میں بہت بڑی پیش رفت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نئی دنیا کی دریافت نے دس ہزار سالوں سے جدا لوگوں کو ایک دفعہ پھر اکٹھا کر دیا۔ اسی ملاپ کی بدولت ساری دنیا میں جانوروں اور اشیائے خرد و نوش کا تبادلہ ممکن ہو سکا۔ پیرو سے آلو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ میکسیکو کا مرچ اور مصالحہ تمام ایشیا میں مقبول عام ہےجبکہ ایتھوپیا کی کافی کی فصل اب برازیل سے لے کر ویتنام تک گھر گھر استعمال ہوتی ہے۔
اس عرصے میں مختلف معاشروں کی نہ صرف مختلف انداز میں پرورش ہوئی اور مختلف سیاسی اور معاشی نظاموں کی تشکیل ممکن ہوئی بلکہ انہوں نے ٹیکنالوجی میں نئی ایجادات بھی کیں، نئی فصلیں اگائیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں مختلف زبانیں بنائیں اور غور و فکر کی نئی راہیں متعین کیں۔ اس تنوع نے تہذیبوں کےاس دوبارہ ملاپ کے عمل کو بہت سود مند بنا دیا۔
تاریخی طور پر انسان کے اپنے گھراور گاؤں کے پرسکون ماحول سے سے باہر نکلنے کی عام طور چار وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ اول اپنی سلامتی کو یقینی بنانا اور اپنی سیاسی طاقت کا پھیلاؤ، دوئم خوشحالی یعنی بہتر انداز زندگی کی فراہمی، سوئم اپنے اپنے مذاہب کی ترویج اور پھیلاؤ اور چہارم انسانی فطرت کا خاصہ یعنی تحیر اور گھومنے پھرنے کا مادہ۔
اسی لئے عالمگیریت کے مرکزی کردار فوجی، تاجر، مبلغ اور سیاح رہے ہیں۔ اولین تہذیب میں تجارت کے آثار اندرون افریقہ کے ساحلوں میں دفن قدیم سیپیوں میں ملتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل انسان سمندر کے راستے تجارت کرتے تھے۔ بدھ مذہب کے بھارت سے انڈونیشیا تک پھیلاؤ کا نتیجہ انڈونیشیا کے ’بوروبیوڈر‘ مندر کی صورت میں نکلا جو عالمگیریت کے اولین شاہکاروں میں سے ایک ہے۔
فاہیان، ابن بطوطہ، چنگیز خان اور سکندر اعظم
چینی بدھ مذہب کے بھکشو فاہیان کے چوتھی صدی کے بھارت کے سفر سے لے کر عرب سیاح ابن بطوطہ کے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے سفر تک کے ایک ہزار سال سال کے عرصے میں سیاح نئی دنیاؤں اور دور افتادہ علاقوں اور تہذیبوں کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں۔ اگرچہ یہ سفر کچھ سست رفتار اور خطرناک تھے لیکن سکندر اعظم سے لے کر چنگیز خان جیسے مہم جو رہنماؤں نے اپنے گھروں سے دور جا کر نئے علاقے فتح کیے۔ ان فتوحات کا مطلب دونوں رخوں میں عالمگیریت تھا کیونکہ فاتح اور مفتوح مختلف طریقوں سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے تھے۔
اشیاء کی منتقلی کا آبادی پر اثر
چین کی آبادی چاول کی فصل کے لئے قابل کاشت رقبہ کی کمی کی وجہ سے قابو میں تھی۔ چین کی آبادی میں، ان نئی فصلوں کی بدولت جو بہت کم رقبے پر کاشت ہو سکتی تھیں، بہت اضافہ ہوا۔ اسی طرح چیچنیا کی آبادی میں نئی دنیا سے مکئی کی آمد سے حیرت انگیز اضافہ ہوا۔
پچھلے پانچ سو سال کی کاروباری تاریخ میں کچھ اور نئے عوامل کا اضافہ بھی ہوا ہے جس نے دنیا کے باہمی رابطوں کو مضبوط تر کر دیا ہے۔ برطانیہ نے بیسویں صدی کےاوائل میں برازیل کے جنگلوں سے ربر کے پودے لا کر ملائشیا میں لگائے جس سے ہنری فورڈ ٹی ماڈل کے ٹائروں کے لئے خام مال کی فراہمی ممکن ہو سکی۔ نئی دنیا سے آلو اور مکئی کی فصلوں کی درآمد سے دنیا کی آبادی پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر چین کی آبادی چاول کی فصل کے لئے قابل کاشت رقبہ کی کمی کی وجہ سے قابو میں تھی۔ چین کی آبادی میں، ان نئی فصلوں کی بدولت جو بہت کم رقبے پر کاشت ہو سکتی تھیں، بہت اضافہ ہوا۔ اسی طرح چیچنیا کی آبادی میں نئی دنیا سے مکئی کی آمد سے حیرت انگیز اضافہ ہوا۔
سلطنت روم سے لیکر دو صدیوں قبل تک کے برطانوی سامراج اور دنیا پر موجودہ امریکی غلبہ میں مشترک بات ایک برتر ملک کی قوت ہے جس نے مختلف اقوام کے ایک دوسرے پر انحصار کو نیا رخ دے دیا ہے۔ دنیا بھر کو مختلف اشیاء اور ضروریات زندگی کی فراہمی میں امریکی اور برطانوی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مرکزی کردار ہے۔
آزادانہ تجارت کے پھیلاؤ نے معاشی نمو میں اضافہ کیا ہے جس سے عالمی سطح پر بنائی جانے والی اشیاء کے استعمال اور بین الاقوامی سیاحت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بہترین مثال دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے مما لک چین اور بھارت ہیں۔
ہرچند دنیا کی بیشتر آبادی ابھی بھی غربت کا شکار ہے، لیکن جمہوریت، انسانی حقوق اور آزاد پریس کے تصورات اب عام ہو چکے ہیں۔ انیسو چوہتر سے لے کر اب تک ان ملکوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑہ کر ساٹھ فیصد ہو گئی ہے جہاں کثیرالجماعتی انتخابات کے ذریعے اپنی حکومتوں کا چناؤ کرتی ہیں۔
عالمگیریت اور برق رفتار زمانہ
انیسویں صدی میں ملکہ وکٹوریا کا ایک پیغام بحرالکاہل کے پار امریکی صدر جیمز بیوکینن تک کیبل کے ذریعے سولہ گھنٹے میں پہنچا۔ آج تحریر، آواز اور تصویر کی شکل میں معلومات ایک ثانیہ میں روشنی کی رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہیں۔
جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورات کی دنیا بھر میں ترویج میں سب سے طاقتور عامل بیسویں صدی کے دوسرے حصہ میں بپا ہونے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے۔ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انیسویں صدی میں ملکہ وکٹوریا کا ایک پیغام بحرالکاہل کے پار امریکی صدر جیمز بیوکینن تک کیبل کے ذریعے سولہ گھنٹے میں پہنچا۔ آج تحریر، آواز اور تصویر کی شکل میں معلومات ایک ثانیہ میں روشنی کی رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہیں۔
نیویارک سے لندن تین منٹ کی کال ایک ڈالر سے بھی کم پڑتی ہے جبکہ انیسو سو تیس میں یہی کال تین سو ڈالر پڑتی تھی۔ مواصلات اور ذرائع آمد و رفت کی قیمت میں اس ڈرامائی کمی نے عام لوگوں کے لئے انفارمیشن کا حصول ممکن بنا دیا ہے۔ اس سے معاشی نمو میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے عام آدمی کے زندگی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔
اس تمام ترقی کے لئے قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔ دنیا بھر میں غربت کی کمی کی وجہ سےماحول پر منفی اثر ہوا ہے۔ زراعت اور جنگلات سے متعلقہ اشیاء کی تجارت کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر کے ’رین فارسٹ‘ میں ایک فیصد کمی ہو رہی ہے۔ ایڈز کی بیماری کا آغاز افریقہ اور جنوبی امریکہ سے ہوا اور اب یہ پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ ہر روز چودہ ہزار افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
عالمگیریت: آلو کا حیرت انگیز سفر
انیسں سو ستانوے میں منیلا سے جاری ہونے والے ’آئی لو یو‘ وائرس سے سات سو ملین ڈالرز کا مالی نقصان ہوا۔گیارہ ستمبر کے ہائی جیکروں نے اپنے آپریشن کے لئے فنڈز کی منتقلی کے لئے الیکٹرونک ذرائع استعمال کیے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے نہ صرف آپس میں رابطہ رکھا بلکہ اپنے ہوائی ٹکٹ بھی خریدے۔ ان حملوں کے بعد سے اب تک اسامہ بن لادن کا دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ سیٹلائٹ ٹی وی ہے۔
نئی ٹیکنالوجی کے مسائل
ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جب سیاحوں نے نئی دنیا دریافت کی تو اس کے ساتھ ہی چیچک اور انفلوئنزہ جیسی بیماریوں نے مقامی امریکیوں میں ہر چار میں سے تین کو ہلاک کر دیا۔
لیکن ہم اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں توپتہ چلے گا کہ ایسا تو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جب سیاحوں نے نئی دنیا دریافت کی تو اس کے ساتھ ہی چیچک اور انفلوئنزہ جیسی بیماریوں نے مقامی امریکیوں میں ہر چار میں سے تین کو ہلاک کر دیا ۔ اسی طرح امریکہ، ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ میں کالونیز بنانے کے عمل نے وہاں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ وہاں کے روایتی سماجی ڈھانچہ اور سیاسی نظام کو بھی تباہ کر دیا۔
تارکین وطن - عالمگیریت کے معمار
امریکہ نے اس دنیا کے آپس میں ملاپ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ خود بھی جدید عالمگیریت کی پیداوار ہے۔ ساٹھ ملین لوگوں کی بڑی اکثریت نے انیسویں صدی میں عالمگیریت کے ابتدائی زمانے میں اپنے گھر بار چھوڑ کر امریکہ ہجرت کی۔ تارکین وطن اور غلاموں نے تاریخ کی امیر ترین قوم کی تعمیر کی۔ انہوں نے بھاپ سے چلنے والے انجن اور ’وِنڈ مِل‘ جیسے وسائل کو استعمال کیا اور دنیا میں عالمگیریت کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی فتح اور مارشل پلان کے نفاذ سے اب تک امریکہ کی معاشی اور فوجی طاقت دنیا کے دور دراز کونوں تک پھیل گئی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور دیوار برلن کے گرنے سی دنیا میں نظریاتی تفریق کا خاتمہ ہوگیا اور عالمگیریت کو ایک نئی توانائی ملی۔ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ بہت سے لوگ عالمگیریت کو ’امیریکنائزیشن‘ کے مترادف سمجھتے ہیں۔
غریب ممالک کو فائدہ؟
ترقی پذیر ممالک کو عالمگیریت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا بلکہ کچھ معاملوں میں تو ان کی حالت پہلے سی بھی خراب ہوگئی ہے۔ غربت کی مجموعی شرح میں خاتمے کے باوجود دنیا کی تین چوتھائی آبادی ابھی بھی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے نے امیر اور ترقی پذیر ممالک کے مابین موجود فرق کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے بہتر صنعتی ڈھانچہ، اداروں اور تعلیم کی وجہ سے اور درمیانی آمدنی والے ممالک نے آزاد معاشی پالیسیوں کی بناء پر عالمگیریت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کو عالمگیریت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا بلکہ کچھ معاملوں میں تو ان کی حالت پہلے سی بھی خراب ہوگئی ہے۔ غربت کی مجموعی شرح میں خاتمے کے باوجود دنیا کی تین چوتھائی آبادی ابھی بھی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔
عالمگیریت کے اصول اور ان اصولوں پر عمل درآمد کروانے والے عالمی ادارے جیسے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی تشکیل بھی امیر اور غریب قوموں کے درمیان موجود طاقت کے فرق کی غمازی کرتے ہیں۔
دنیا میں معلومات کے آزادانہ تبادلے کی وجہ غریب ممالک اب امیر اور ترقی پذیر ممالک کے مابین موجود فرق کے بارے میں بڑی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس آگہی کا اظہار ونیزویلا سے لے کر فلپائن تک ہونے والے امریکہ مخالف مظاہروں سےہوتا ہے۔
دنیا کی اشیاء اور نظریات کے ذریعے یکجہتی کے ناقد اور حمایتی دونوں موجود ہیں۔ ایرانی طلباء امریکی انداز زندگی اپنانا چاہتے ہیں تو مغرب میں بہت سے لوگ عالمگیریت کو سرمایا دارانہ نظام یعنی کیپِٹلزم کی علامت قرار دے کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مغرب کی قیادت میں عالمگیریت کا مقصد اسلام کو تباہ کرنا ہے۔
ان تمام عوامل کا عالمگیریت پر کیا اثر ہو گا؟ کیا عالمگیریت بڑھتی ہوئی عالمی بے اطمینانی اور دہشت گردی کے خطرے کے سامنے گھٹنے ٹیک دی گی؟ بلاشبہ ماضی میں بھی عالمگیریت کی رفتار میں کمی واقع ہوئی۔ دونوں عالمی جنگوں کے درمیان قیمتوں میں اضافہ اور آزاد نقل و حرکت کے باعث آزادانہ تجارت اور لوگوں کے نقل و حرکت میں سستی آ ئی۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی نازیوں اور جاپان کے خلاف فتح سے عالمگیریت کی راہیں کھل گئیں اور تجارت اور سفر میں بھی بہت اضافہ ہوا۔
عالمگیریت کے لئے خطرات
عالمی یکجہتی کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ یورپ میں آنے والے تارکین وطن کے خلاف جذبات، مغرب کی زراعتی سبسِڈی، انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور گیارہ ستمبر کے بعد سے امریکہ کی سخت ویزہ پالیسی ہیں۔
عالمی یکجہتی کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ یورپ میں آنے والے تارکین وطن کے خلاف جذبات، مغرب کی زراعتی سبسِڈی، انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور گیارہ ستمبر کے بعد سے امریکہ کی سخت ویزہ پالیسی ہیں۔ خوشحالی کی تلاش میں لوگ اب بھی دوسرے ممالک میں کاروبار پھیلاتے ہیں۔ دوسروں کے بارے میں وہی تحیر جس نے ابن بطوطہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا، وہ اب بھی لاکھوں لوگوں کو سیاحت، غیر ملکی فلمیں دیکھنے، مختلف کھانے کھانےاور بین الاقوامی موسیقی اور کھیلوں سے لطف اندوز ہونے پر مائل کرتا ہے۔
ماضی اور آج کی عالمگیریت کے درمیان فرق رفتار اور بالکل واضح نظر آنے کا ہے۔ اپنے تمام تر مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ عالمگیریت کا تاریخی عمل جاری رہےگا اور مزید واضح ہوتا جائے گا۔ ہمارا کام ، چاہے ہم شہری ہوں یا اسکالر یا مدبر، یہ ہونا چاہئے کہ ہم عالمگیریت کو سمجھیں اور آگے بڑھائیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اس کے مثبت پہلوؤں کی حوصلہ افزائی کریں اور منفی پہلوؤں سے صرف نظر کریں۔