Wednesday, September 7, 2016

پاکستان کے رام مندر کی کہانیاں Stories of Ram Mandir in Pakistan

Stories of Ram Mandir in Pakistan
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ارد گرد اور پنجاب کے راولپنڈی شہر میں بہت سے تاریخی مندر اور گردوارے موجود ہیں، چاہے تقسیم کے بعد ان کی رونق پہلے جیسی تو نہیں رہی ہے.
یہ جس بھی حالت میں ہیں، ایک کہانیاں بیان کرتے ہیں جسے آثار قدیمہ کی معلومات کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے.

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے آر کے لوجی محکمہ کے پروفیسر سادد عارف کے مطابق اسلام آباد میں پرانے وقت کے تین مندر ہوا کرتے تھے.ایک سےيدپر گاؤں میں تھا. دوسرا راول دھام کے قریب اور تیسرا گولرا کے مشہور دارگڑھ کے پاس ہے.

تقسیم کے بعد ان سب کی نگرانی جیسے تھم سی گئی. سال 1950 کے لیاقت-نہرو معاہدے میں ایسی تمام مقدس مقامات کو 'پناہ گزین سپتتي ٹرسٹ' کے حوالے کیا جانا تھا.لیکن سےيدپر گاؤں اور رام مندر کمپلیکس، جو اسلام آباد کے علاقے میں تقریبا ڈھائی سو سال پہلے بنائے گئے تھے، وہ اسلام آباد کے سی ڈی اے یا کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت ہیں.

اس مندر اور گاؤں کے بارے میں پروفیسر سادد نے راولپنڈی گذےٹير سے کچھ معلومات حاصل کی ہے. اس کے مطابق انگریزوں کے دور میں 1890 میں جب گذےٹير مرتب کیا گیا، تو یہ درج کیا گیا کہ سےيدپر گاؤں تقریبا 1848 میں بس چکا تھا.اس میں رام مندر، گرودوارہ اور ایک دھرم شالہ بھی بنائے گئے تھے، جہاں ہر سال تقریبا آٹھ ہزار افراد مندر کے درشن کے لئے آتے تھے.
پھر تقسیم کے بعد زیادہ تر ہندو بھارت چلے گئے تو یہ ساری جگہوں کو 'دشمن سپتتي' مانتے ہوئے سیل کر دیا گیا.
اسلام آباد کے مٹھی تھارپاركر کے کپل دیو وہاں رام مندر کی دوبارہ مرمت کا مطالبہ کر رہے ہیں.

جرمن این جی او کے لیے کام کرنے والے کپل کہتے ہیں، "جب حکومت لال مسجد، فیصل مسجد اور گرجا گھروں کو تحفظ دے سکتی ہے تو ہمارے مندروں کو کیوں نہیں؟"کپل کی یہ بھی شکایت ہے، "صرف اسلام آباد میں قریب 300 ہندو گھر آباد ہیں، لیکن مندر تو دور کی بات، کوئی کمیونٹی کی تعمیر بھی ہمارے لئے نہیں ہے، اور کسی بھی تہوار یا جنازہ کے لئے ہمیں راولپنڈی جانا پڑتا ہے."

اس رام مندر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ بادشاہ مان سنگھ کے وقت میں 1580 میں بنوایا گیا تھا. تاہم پروفیسر سادد راولپنڈی گذےٹير کے حوالے سے اس بات سے انکار کرتے ہیں.
لیکن ان کا ایسا بھی خیال ہے کہ یہاں پراگیتہاسک دور کی گفاوں بھی ملی ہیں. اس گاؤں میں بھگوان رام اور لکشمن کے نام پر کنڈ ہوا کرتے تھے جو گاؤں والے استعمال کیا کرتے تھے.



سال 2008 میں اسلام آباد کی سی ڈی اے نے اس گاؤں کو 'ورثہ گاؤں' مانتے ہوئے، اس کے تعمیر نو کا کام شروع کیا، تب سے اسے سےيدپر گاؤں کے نام سے جانا جانے لگا.مرگللاه کی پہاڑیوں کے درمیان تاریخ کہ کہانیاں سناتے سےيدپر گاؤں میں ہوٹل کھل گئے ہیں اور مقامی دستکاروں کے لئے بھی روزی روٹی کا راستہ کھل گیا ہے.
اس تعمیر نو میں رام مندر احاطے کی بھی رنگائی پتائی ہوئی ہے لیکن مندر سے مجسمے اٹھا لی گئی ہیں.

سےيدپر گاؤں میں گوشت خوری سرو کرنے والے ہوٹلوں پر تو بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے ہیں، مگر رام مندر احاطے کا نام ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتا.بتوں سے خالی اس مندر کا دروازہ ضرور کھلے ملتا ہے اور یہاں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا ہے کہ 'مندر میں جتے پہن کر آنا منع ہے'.

ہندو کمیونٹی کے پاکستانی رہنما ڈاکٹر رمیش واكواني کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے نئے میئر نے ان سے ستمبر 2016 میں اس مندر احاطے کو دوبارہ تیار کرکے ہندو کمیونٹی کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ہے.ڈاکٹر واكواني کو اس وعدے پر اعتماد ہے، مگر کپل دیو اسے صرف سیاسی وعدہ مانتے ہیں. ان کا خیال ہے کہ واكواني بھی حکمراں پارٹی مسلم لیگ (نواز) سے ہیں، تو یہ سرکاری وعدہ ہے اور ایسے وعدے کم ہی پورے ہوتے ہیں.

کپل کا کہنا ہے، پورے پاکستان میں جتنی بھی ایسی مقدس جگہیں ہیں، ان کی پناہ گزین سپتتي ٹرسٹ کا سربراہ، ایک ہندو ہونا چاہئے، جو ان جگہوں کا مکمل احترام کر سکے اور ان پر غیر قانونی قبضے نہ ہوں.

پاکستانی مصنف ریما عباس نے چند سال پہلے پختونخوا سے تھارپاركر تک، چالیس مندروں پر ایک کتاب - 'هسٹرك ٹےپلس ان پاكستان- اے کال ٹو كشےيس' لکھی ہے.ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں بابری مسجد کے واقعہ کے بعد مندروں پر قبضے کئے گئے تھے، لیکن وہ سب واپس لے لئے گئے ہیں.

ان کا یہ بھی کہنا ہے، "ضرور کچھ مندر ایسے بھی ہیں جو بہت قیمتی سپتتي ہیں. ان میں کچھ لوگوں کی کاروباری نقطہ نظر سے دلچسپی ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے."

Thursday, September 1, 2016

کاغذ کی کتابوں کا زمانہ ڇلا جائے گا؟

جناب ڪٿته هٿوستن ٻي بي سي 
 in UrduBy Kieth Huston of BBC translated from Hindi

کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں. زندگی میں بہت سے رشتے چھوٹ جاتے ہیں میں قتابو سے رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا.
کتابیں آپ دکھ، درد، خوشی، تنہائی کی ساتھی ہوتی ہیں. لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ ہمارے اس دوست کا رنگ ڈھنگ بدلتا جا رہا ہے.

ایک دور تھا جب کتاب ہاتھ میں آتی تھی تو ہم اس کی خوشبو محسوس کرتے تھے. اس کی موجودگی کا احساس ہوتا تھا.
لیکن اب کمپیوٹر پر صرف ایک کلک کیجئے اور آپ کو ڈھیروں کتابیں مل جائیں گی. اب ای-بکس کا زمانہ آ گیا ہے.
آہستہ آہستہ کتابیں سمتل سے نکل کر کمپیوٹر کے کسی آلہ میں سٹور ہونے لگی ہیں. آپ کے پاس اسمارٹ فون ہے، رکن ہے، جلانے ہے، لیپ ٹاپ ہے. ان پر آپ جب چاہیں کوئی بھی کتاب پڑھ سکتے ہیں. اب تو ای لائبریری بھی بن چکی ہے.



یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید گھروں میں بک شےلف رکھنے کا زمانہ گیا. لیکن کتابوں کے شوقین اور ان چھاپنے والے اس سے اتفاق نہیں رکھتے. ان کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ اس دہائی کے آخر تک ڈیجیٹل کتابیں پرنٹنگ والی کتابوں کی جگہ لے لیں گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا.

کتاب کی دکان سے کتابیں خریدنے والوں کی تعداد جو گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل گر رہی تھی، وہ اب بڑھنے لگی ہے. پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ گزشتہ سال ای بک کی فروخت میں کمی دیکھی گئی ہے، وہ بھی پوری دنیا میں.
کتابوں کے اس بدلتے شکل کو لے کر لوگوں کی فکر کوئی نئی بات نہیں. بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے. قدیم روم میں بتوں پر، عمارتوں پر، قبرگاهو پر بڑے بڑے حروف میں پیغام اكےرے جاتے تھے. بعد میں لوگوں نے ان پےغامو کو لکڑی کی سيلو پر لکھ کر تاریخ، فن اور پھلسفي جیسے حصوں میں بانٹ کر لائبریری میں محفوظ رکھنے کا کام شروع کر دیا.

لیکن اس وقت بھی یہ قتابو کی شکل میں سنجو کر نہیں رکھے جاتے تھے. بلکہ مصر میں بننے والے کاغذ جیسے لپیٹے جانے والے پےپارس کے لٹٹھو پر لکھے جاتے تھے. یہ پےپارس خاص طرح کے پلانٹ کی چھال سے بنایا گیا کاغذ ہوتا تھا. یہ بہت پائیدار نہیں ہوتا تھا. اس کی لمبائی ساڑھے چار میٹر سے لے کر سولہ میٹر تک ہوتی تھی.

اتنے لمبے رول پر لکھنا اور اس پڑھنا دونوں ہی مشکل تھا. پڑھنے والے کو اپنے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرنا پڑتا تھا. ایک آدمی کتاب پڑھتا تھا اور دوسرا آدمی اس لپیٹنے کا کام کرتا تھا. پےپارس کے ان لٹٹھو کو محفوظ رکھنا بھی آسان نہیں تھا. ایک مشکل اور بھی تھی سکرال پر ایک ہی طرف لکھا جا سکتا تھا.

دنیا نے پہلی کتاب پہلی صدی کے آس پاس دیکھی تھی. اس دور میں دراصل پےپارس پر جو کچھ لکھا جاتا تھا اس کے دونوں طرف خالی جگہ چھوڑ دی جاتی تھی.

لیکن پہلی صدی میں کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ لکڑی کی جلد بنا کر اس پےپارس کو دو ٹکڑوں میں توڑ اس کے دونوں طرف لکھا جائے. پھر اس کتاب کو درختوں کی چھال کی جلد سے کتاب کی شکل دے دی گئی. ایسا پہلی بار ہوا کہ کوئی لکھی گئی چیز کتاب کی شکل میں سامنے آئی ہو.

روم کے لوگ اسے کوڈیکس کہتے تھے. اس کا ذکر اس دور کے مصنف مارشل کے قصوں میں ملتا ہے. جنہوں نے اپنی کتاب کی خوبيا گناتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ آپ کہیں بھی لے جا سکتے ہیں. آپ سفر کا ساتھی بنا سکتے ہیں.
اس دور میں پےپارس کے سکرال کی جگہ چمڑے سے بنائے جانے والے صفحات نے لے لی تھی. انہیں پارچمےٹ کہا جاتا تھا. یہ پارچمےٹ کافی چکنے ہوتے تھے. جس سے اس پر لکھنا آسان ہوتا تھا. تاہم ہمیں آج یہ نہیں معلوم ہے کہ انہیں پہلی بار پیدا کس نے اور کس لئے تھا؟

پارچمےٹ کو تیار کرنے میں کافی محنت اور وقت بھی لگتا تھا، لیکن یہ پائیدار ذریعہ تھا، کسی کی عبارت کو محفوظ کرنے کی. قتابو کا شوق رکھنے والوں کے لیے یہ کافی بڑی بات تھی. انہیں لانا لے جانا آسان ہوتا تھا. لوگوں کو طویل لمبے کتاب سے نجات مل گئی تھی.

آہستہ آہستہ کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ان پر جلد چڑھانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا. پڑھنے والی کی آسانی کے لئے صفحہ پر نمبر لکھے جانے لگے تھے.


کتابوں کی دنیا میں نئے نئے تجربے كےيے جا رہے تھے لیکن روم اور اس کے آس پاس کے لوگ کوڈیکس کی كھاسيتو کو لے کر آپس میں بٹے ہوئے تھے. روم کی آبادی کا بڑا حصہ جس میں یہودیوں کی کافی تعداد تھی، وہ کتاب کو بہتر مانتے تھے.

لیکن عیسی کے چھٹے صدی آتے آتے رومن سلطنت کا کم و بیش خاتمہ ہو گیا تھا. وہیں یہودیوں کی تعداد بھی کافی گھٹ گئی تھی. ان مقابلے عیسائیوں کی آبادی کافی بڑھ گئی تھی.

دلچسپ یہ کہ یہودیوں کے مقابلے عیسائیوں کو کوڈیکس کافی پسند آئی تھی. تو ایک عیسائی مذہب کی توسیع کے ساتھ ساتھ ہی کوڈیکس کا بھی خوب چلن ہو گیا. پےپارس کی بنا سکرال بہت پیچھے چھوٹ گئے.

کتاب نے اپنی پیدائش سے لے کر اب تک بہت سے دور دیکھے ہیں. ایک گول سے نکل کر دوسرے راؤنڈ میں داخل ہوئی. تمام چیلنجوں کا سامنا کیا.

اب 21 ویں صدی میں ای-بکس کاغذ بکس کی جگہ لیں گی یا اپنی الگ شناخت بنائیں گی، کہہ پانا مشکل ہے.

کیا ٹیکنالوجی نے بھروسہ کمزور کیا ہے؟Has technology weakened trust

ٹیکنالوجی، گیجٹ، انٹرنیٹ سے ہمیں شکایت رہتی ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے. لیکن اندر سے اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ ہماری زندگی ان کی وجہ سے آسان ہو گئی ہے.

It is thought that technology has enslaved us but has technology also made it difficult to trust  each other?

آج آپ کہیں بھی بیٹھ کر اپنا کام آسانی سے کر سکتے ہیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی اسی خوبی نے ہمارے درمیان بھروسے کی ڈور کمزور کر دیا ہے. آپ حیرانی ہو رہی کریں گے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ایک وقت تھا کہ صبح نو بجے سے لے کر شام 5 بجے تک ہی آپ کو آفس میں کام کرنا پڑتا تھا. لیکن نئی ٹیکنالوجی آنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس پابندی سے آزاد ہیں. آج بہت سی کمپنیاں آپ کی سہولت کے حساب سے آفس میں آکر کام کرنے کا موقع دے رہی ہے. کیونکہ آج چوبیس گھنٹے کام کرنے کا زمانہ ہے.



یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ لوگوں کو ایسا موقع مل رہا ہے. لیکن علم اس کو ملازمین کے مفاد میں نہیں دیکھتے. ان کا خیال ہے اس سہولت کے فائدے بہت زیادہ نہیں ہیں. بلکہ، وہ اسے ایک نقصان کے طور پر دیکھتے ہیں. ان کا کہنا ہے آپ کام پر ہر پل نظر رکھی جاتی ہے. بات بات پر میل کر دیا جاتا ہے.

جو بات آپ کو بلا کر زبانی طور پر کہی جا سکتی ہے اس کے لئے بھی میل کر دیا جاتا ہے، لہذا آپ کو کتنی غلطیاں کرتے ہیں اس کا ریکارڈ تیار ہوتا رہے.

میڈرڈ کے بزنس اسکول میں لےكچرر المدےنا كنبانو کہتے ہیں، ہر وقت نیٹ ورک سے منسلک رہنے پر ملازمین پر بھاری دباؤ ہوتا ہے. اس سے آپ منیجر اور آپ درمیان یقین ختم ہونے لگتا ہے. ہم ٹیکنالوجی کے محاذ پر ترقی کرتے جا رہے ہیں. مگر باہمی بھروسے کے محاذ پر روز پچھڑ رہے ہیں.



ان کے مطابق حال یہ ہے کہ آج کی ٹیکنالوجی نے ہمارے اعتماد کو کم و بیش ختم کر دیا ہے. آپ کتنے ہی اچھے ملازم کیوں نہ ہوں، آپ منیجر آپ پر آنکھ موند کر یقین نہیں کرتا.

آکسفورڈ یونیورسٹی کے بزنس سکول کی لیکچرر ریشیل بوٹسمےن کہتی ہیں کی آج کے زمانے میں بھروسے جیسی چیز کی گنجائش ہی نہیں بچی. یہاں کوئی ایک دوسرے پر یقین نہیں کرتا.

امریکہ کے مشہور میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی شےري ٹركل کہتی ہیں آج میسج، ای میل وغیرہ کی طرف لوگوں کا رجحان زیادہ ہو گیا. کم الفاظ میں بس کسی طرح سے اپنی بات کہہ دینے کی جلدی رہتی ہے. اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے امتیازات وخصوصیات کو نظر انداز کر دیتے ہیں. کیونکہ ہمارے اندر ایک دوسرے کی اچھائیوں کو قبول کرنے کے لئے بھی یقین نہیں ہوتا.

ایک دوسرے پر کم ہوتے ایمان کی وجہ سے ہی ہمیں سارا وقت اپنی کرسی پر بیٹھ کر کام کرنا پڑتا ہے. اکثر یہ دکھاوے کے لئے ہوتا تاکہ ہم اپنے باس کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں. بہت سے لوگ کام ختم ہونے کے بعد بھی کمپیوٹر میں جھانکتے رہتے ہیں. وہیں کچھ لوگ کام کرنے کے بہانے سے دفتر میں وقت گزارتے رہتے ہیں. کچھ لوگ جو کام باہر سے کر سکتے ہیں، اس کے لئے بھی آفس میں بیٹھے رہتے ہیں.

آفس کے کام کے ساتھ ساتھ ہمیں بہت سے اپنے ذاتی کام بھی ہوتے ہیں. لیکن ہمیں اپنے مالک سے یہ پوچھنا ڈر لگتا ہے کہ کیا ہم کچھ کام گھر سے کر کے بھیج سکتے ہیں. یا پھر گھر سے کام کرنے پر لوگوں کو اپنی ملازمتوں پر خطرہ منڈلاتا نظر لگتا ہے.

علم مانتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے تمام کمپنیاں اپنے ملازمین چوبیس گھنٹے نگاہ رکھنے کا بھی کام لیتی ہیں.
لندن میں مستقبل ورک سینٹر نے ایک ریسرچ میں پایا کہ لوگوں کو ان کی سہولت کے حساب سے کام کرنے دینے کے ساتھ ساتھ ان پر نظر رکھے جانے سے ایک طرح کی کشیدگی بننے لگتا ہے.

کام کے گھنٹوں میں لچک آ جانے سے بہت سی وائٹ کالر جاب جیسے اکاونٹس اور قانون کے پیشے میں کام کرنے والوں کے لیے خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے. اس عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے بھی لوگ زیادہ سے زیادہ آفس میں رہنا چاہتے ہیں.
ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق تکنیکی طور پر قابل ہو جانے کی وجہ سے مینو فیکچرنگ سیکٹر میں بہت سے کام سمٹ گئے ہیں. اسی طرح سے بہت سے وائٹ کالر جاب میں بھی کمی آ جائے گی.

مثال کے لئے اگر کسی کو کوئی گھر فروخت ہے تو وہ آن لائن ہی ساری معلومات دے سکتا ہے. آن لائن فارم بھر کر وہ اپنا سارا کام کر سکتا ہے. اس کام کے لئے کمپنیوں کو الگ سے ملازم رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی.

اس نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملازمتوں کو لے کر عدم تحفظ کا ماحول بھی بنا ہے. ملازم کو لگتا ہے وہ جتنا وقت آفس میں رہے گا، اس کی موجودگی اس کام بنی رہنے کی ضمانت ہوگی. لیکن اس سے اس کام دینے والے کو نقصان ہوگا.

کسی بھی ملازم کو اگر سہولت کے مطابق کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ زیادہ دل لگا کر کام کرتا ہے. اس کے اچھے ہی نتیجہ آتے ہیں.

ایک ریسرچ کے مطابق اگر آفس میں ملازمین کو تمام سہولیات دی جائیں اور آنندپورن ماحول مہیا کرایا جائے تو ان کے کام میں بارہ فیصد تک بہتری آتی ہے. کام کی لچکدار گھنٹے ہونے کی وجہ سے ملازم اپنا رہن سہن بھی اچھا کر پاتے ہیں.
سپین میں زیادہ تر کمپنیوں میں کام کرنے والے دو گھنٹے کے کھانے کے وقفے کے ساتھ صبح 9 بجے سے شام سات بجے تک کام کرتے تھے. لیکن سپین کی ہی ایک بڑی کمپنی نے اپنے ملازمین کو بغیر کھانے کے وقفے کے صبح کے آٹھ بجے سے دن کے تین بجے تک کام کرنے کا موقع دیا.

نتیجہ کے طور پر کمپنی نے پایا کہ ملازمین کا اعتماد بڑھا ہے. کہا جاتا ہے کسی چیز کو سمجھنے کے لئے اس میں تبدیلی کا لانا ضروری ہے. ملازمین سے اچھا کام کرنے کے لئے بہتر کام کرنے کے ماحول اور سکھ سودھاے دینا ضروری ہے. تاکہ ملازمین کا ان کے وقت پر مکمل کنٹرول رہے.

Tuesday, August 30, 2016

کس کھیل میں آسانی سے مل سکتا ہے گولڈ

برازیل کے ریو شہر میں حال ہی میں اولمپک کھیل ختم ہوئے. بہت سے کھلاڑیوں نے میڈل جیتے. بہتوں کے دل بھی ٹوٹے. آپ نے بھی بہت سے مقابلے دیکھے ہوں گے. آپ کے پسندیدہ کھلاڑی کو تمغہ جیتتے دیکھ کر آپ نے بھی جشن منایا گے. کئی بار کھلاڑیوں کو دیکھ کر لگا ہوگا کہ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں. Usain بولٹ کو دوڑتے دیکھ کر لگا ہوگا کہ اتنی تیزی سے تو آپ کو کئی بار بس پکڑنے کے لئے دوڑے ہوں گے. لمبی چھلانگ والے کھلاڑی کو دیکھ کر بہت لوگوں نے سوچا ہو گا کہ اتنی لمبی چھلانگ تو انہوں نے کئی بار بارش میں بھرا ہوا گڑھے پار کرنے کے لئے لگائی ہوگی. خیر، ریو اولمپکس میں میڈل جیتنے کا موقع تو گیا. جی ہاں، آپ 2020 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس کے لئے ضرور ابھی سے تیاری شروع کر سکتے ہیں. چلئے آپ کو کچھ ایسے کھیلوں سے روبرو کراتے ہیں جن میں آپ کے میڈل جیتنے کے چانس ہیں. اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو، آپ کو نوكايان یا سیلنگ میں قسمت آزما سکتے ہیں.

 اس کے لئے خوش وزن 55 کلو ہونا چاہئے. مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس کشتی خریدنے کے پیسے ہوں. اس میں بہت کم کھلاڑی دلچسپی لیتے ہیں. تو اس کھیل میں آپ نے جیتنے کے کافی چانس ہیں. ضرورت صرف باقاعدہ مشق اور صحیح کوچ ہے. اسی طرح اگر آپ اچھے کپڑے پہننے کے شوقین ہیں تو بھی آپ کو اولمپک میں تمغہ جیتنے کی کوشش کر سکتے ہیں. اولمپکس میں ہارس ڈانسنگ کا مقابلہ ہوتا ہے. جس گھوڑے سے سدھے ہوئے ٹھمکے لگوائے جاتے ہیں. اس کھیل کا نام ہے '' جیسا کہ Dressage ''. اس میں نصب شاندار لباس میں ہوتا ہے. مگر اس کے لئے آپ کو سب سے پہلے ایک گھوڑے کا انتظام کرنا ہوگا. اب چونکہ آپ روز گھوڑے کے ساتھ عمل کرنا ہوگا، تو گھوڑا خریدنا ہی ہوگا. مطلب یہ کہ اس کے لئے آپ کو ایک ملین ڈالر یا پھر قري 68 لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے.

 پھر آپ کو اپنی لباس پر بھی اچھی خاصی رقم لگانی ہوگی. اس کا خرچ بھی قریب بارہ ہزار ڈالر یا یہی کوئی آٹھ دس لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے. پھر آپ کو ایک کوچ بھی چاہیے جو آپ کو اس کھیل کے گر سکھا سکے. اس میں بھی اچھا خاصا پیسہ لگے گا. اگر آپ اتنا انتظام کر سکتے ہیں، تو ٹوکیو اولمپکس میں آپ تمغہ جیتنے کے پورے چانس ہیں. گیٹی ایک کھیل ہے جس میں بہت کم کھلاڑی ہوتے ہیں. یہ ہے ہتھوڑا پھینک دو یا گولہ پھینکنے کا مقابلہ. اس میں ایک بھاری گولے کو تیزی سے گھما کر زیادہ سے زیادہ دور پھینکنا ہوتا ہے. اولمپکس میں کھلاڑی ڈھائی سو فٹ تک گولہ پھینک لیتے ہیں. اس کے لئے باقاعدہ پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے. یہ کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے. آپ اکثر یہ مقابلہ دیکھتے ہوئے ایسا ہی کرنے کی سوچتے ہوں گے! اس کے لئے آپ لوہے کی تار والے بھاری گولوں کا انتظام کرنا ہے. پھر ایک بڑے سے میدان کا انتخاب کرنا ہے. آخر میں ضرورت ایک کوچ کی ہوگی. میدان کا انتظام ہی اس میں سب سے مشکل کام ہے. کیونکہ اکثر کھیل کے میدان میں تمام لوگ موجود رہتے ہیں. ایسے میں اس کھیل کے لئے خالی میدان کے لئے لوگ کئی بار گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں. تو، یہ مقابلہ آپ جیت سکتے ہیں، اگر یہ ضروری چیزیں جٹا لیں. اور اگر یہ سب بھی نہیں کر سکتے، آپ کو پیدل تو روز چلتے ہیں نا؟

 بس اسی کی پریکٹس شروع کر دیجئے. کیونکہ اولمپکس میں پیدل چلنے کا بھی مقابلہ ہوتا ہے. اس صحیح مشق سے آپ تمغہ جیتنے کی کافی امید ہے. پیدل چلنے کا مقابلہ، صدیوں سے ہو رہا ہے. پہلے انگلینڈ میں رئیس لوگ یہ مقابلے کراتے تھے. لوگوں کو گھنٹوں یا کئی دنوں تک پیدل چلاتے رہتے تھے تھک ہار کر پیدل چلتے لوگو کا گرنا دیکھ کر انہیں لطف آتا تھا. آج یہ کھیل اولمپکس میں شامل ہے. آپ کئی کلومیٹر تک مسلسل تیز چال سے چلتے رہنا ہوتا ہے. آپ تیز چل سکتے ہیں مگر دوڑ کر اپنے حریف کھلاڑی سے آگے نہیں نکل سکتے. تو اگر آپ پیدل چلتے ہوئے لوگوں کو شکست دینے کا مادہ رکھتے ہیں، تو یہ کھیل سب سے آسان ہے آپ کے لئے. تاکہ آپ اولمپکس کا میڈل جیت سکیں. اس میں خواتین کو بیس کلومیٹر تک مسلسل تیزی سے پیدل چلنا ہوتا ہے. وہیں مردوں کو بیس سے پچاس کلومیٹر تک واک چال میں اپنا ہنر دکھانا ہوتا ہے. اب اگر آپ کسی جمناسٹ کی طرح لچکدار باڈی کے مالک نہیں ہیں، یا پھر Usain بولٹ کی طرح بجلی کی رفتار سے نہیں دوڑ سکتے ہیں، تو کوئی بات نہیں. پیدل تو روز چلتے ہیں نا؟ بس اسی کے ذریعہ اولمپکس کا میڈل جیتنے کی تیاری شروع کریں.

Saturday, August 20, 2016

عالمگیریت کیا ہے؟

سن انیسو باسٹھ میں گلوبلائزیشن یعنی عالمگیریت کی اصطلاح کے پہلی دفعہ استعمال سے لے کر اب تک اس کی مختلف طریقوں سے تشریح کی گئی ہے۔ معیشت کے ماہرین کے مطابق اکیسویں صدی میں اس اصطلاح کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہوا ہے۔ ماضی قریب میں ایسا کوئی اور لفظ ذہن میں نہیں آتا جس کو لوگوں نے اتنے مختلف معنی پہنائے ہوں۔ کچھ لوگ عالمگیریت کو نِروانا سے تشبیہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد عالمگیر امن اور خوشحالی لیتے ہیں جبکہ کچھ اور لوگوں کے نزدیک عالمگیریت کا مطلب افراتفری اور انتشار کے سوا کچھ اور نہیں۔
عالمگیریت: آلو کا حیرت انگیز سفر
لیکن عالمگیریت کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں عالمگیریت کا رجحان شدت اختیار کر گیا ہے اور اس کے مثبت اور منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ تہذیبوں اور معاشروں کے صدیوں پر پھیلے آپس میں تعلقات نے ایک عالمگیر انسانی گروہ کو جنم دیا ہے۔

عالمگیریت کی اصطلاح کےموجودہ استعمال سے ہزاروں سال قبل ہمارے آباواجداد دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل چکے تھے۔ دراصل وہ عمل جس کے ذریعہ انہوں نے ہجرت کی اور تمام براعظم میں بس گئے، عالمگیریت کے موجودہ عمل جیسا ہی تھا۔

دنیا کا پہلا گلوب
’آئیس ایج‘ کے اختتام پر سمندروں کی سطح میں اضافہ کی وجہ سے امریکہ اور یورپ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کے درمیان دوبارہ رابطہ چودہ سو بانوے میں ممکن ہوا جب کولمبس نے کیریبین کے ایک جزیرے پر قدم رکھا۔ اسی سال ایک جرمن جغرافیہ داں مارٹن بیہیم نے دنیا کی عکاسی کرنے والا پہلا ’گلوب‘ بنایا۔

اشیائے خرد و نوش کا تبادلہ
 پیرو سے آلو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ میکسیکو کا مرچ اور مصالحہ تمام ایشیا میں مقبول عام ہےجبکہ ایتھوپیا کی کافی کی فصل اب برازیل سے لے کر ویتنام تک گھر گھر استعمال ہوتی ہے۔ 



امریکہ اور یورپ کے اس دوبارہ ملاپ کو عالمگیریت کی تاریخ میں بہت بڑی پیش رفت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نئی دنیا کی دریافت نے دس ہزار سالوں سے جدا لوگوں کو ایک دفعہ پھر اکٹھا کر دیا۔ اسی ملاپ کی بدولت ساری دنیا میں جانوروں اور اشیائے خرد و نوش کا تبادلہ ممکن ہو سکا۔ پیرو سے آلو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ میکسیکو کا مرچ اور مصالحہ تمام ایشیا میں مقبول عام ہےجبکہ ایتھوپیا کی کافی کی فصل اب برازیل سے لے کر ویتنام تک گھر گھر استعمال ہوتی ہے۔

اس عرصے میں مختلف معاشروں کی نہ صرف مختلف انداز میں پرورش ہوئی اور مختلف سیاسی اور معاشی نظاموں کی تشکیل ممکن ہوئی بلکہ انہوں نے ٹیکنالوجی میں نئی ایجادات بھی کیں، نئی فصلیں اگائیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں مختلف زبانیں بنائیں اور غور و فکر کی نئی راہیں متعین کیں۔ اس تنوع نے تہذیبوں کےاس دوبارہ ملاپ کے عمل کو بہت سود مند بنا دیا۔

تاریخی طور پر انسان کے اپنے گھراور گاؤں کے پرسکون ماحول سے سے باہر نکلنے کی عام طور چار وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ اول اپنی سلامتی کو یقینی بنانا اور اپنی سیاسی طاقت کا پھیلاؤ، دوئم خوشحالی یعنی بہتر انداز زندگی کی فراہمی، سوئم اپنے اپنے مذاہب کی ترویج اور پھیلاؤ اور چہارم انسانی فطرت کا خاصہ یعنی تحیر اور گھومنے پھرنے کا مادہ۔

اسی لئے عالمگیریت کے مرکزی کردار فوجی، تاجر، مبلغ اور سیاح رہے ہیں۔ اولین تہذیب میں تجارت کے آثار اندرون افریقہ کے ساحلوں میں دفن قدیم سیپیوں میں ملتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل انسان سمندر کے راستے تجارت کرتے تھے۔ بدھ مذہب کے بھارت سے انڈونیشیا تک پھیلاؤ کا نتیجہ انڈونیشیا کے ’بوروبیوڈر‘ مندر کی صورت میں نکلا جو عالمگیریت کے اولین شاہکاروں میں سے ایک ہے۔

فاہیان، ابن بطوطہ، چنگیز خان اور سکندر اعظم
چینی بدھ مذہب کے بھکشو فاہیان کے چوتھی صدی کے بھارت کے سفر سے لے کر عرب سیاح ابن بطوطہ کے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے سفر تک کے ایک ہزار سال سال کے عرصے میں سیاح نئی دنیاؤں اور دور افتادہ علاقوں اور تہذیبوں کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں۔ اگرچہ یہ سفر کچھ سست رفتار اور خطرناک تھے لیکن سکندر اعظم سے لے کر چنگیز خان جیسے مہم جو رہنماؤں نے اپنے گھروں سے دور جا کر نئے علاقے فتح کیے۔ ان فتوحات کا مطلب دونوں رخوں میں عالمگیریت تھا کیونکہ فاتح اور مفتوح مختلف طریقوں سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے تھے۔

اشیاء کی منتقلی کا آبادی پر اثر
 چین کی آبادی چاول کی فصل کے لئے قابل کاشت رقبہ کی کمی کی وجہ سے قابو میں تھی۔ چین کی آبادی میں، ان نئی فصلوں کی بدولت جو بہت کم رقبے پر کاشت ہو سکتی تھیں، بہت اضافہ ہوا۔ اسی طرح چیچنیا کی آبادی میں نئی دنیا سے مکئی کی آمد سے حیرت انگیز اضافہ ہوا۔



پچھلے پانچ سو سال کی کاروباری تاریخ میں کچھ اور نئے عوامل کا اضافہ بھی ہوا ہے جس نے دنیا کے باہمی رابطوں کو مضبوط تر کر دیا ہے۔ برطانیہ نے بیسویں صدی کےاوائل میں برازیل کے جنگلوں سے ربر کے پودے لا کر ملائشیا میں لگائے جس سے ہنری فورڈ ٹی ماڈل کے ٹائروں کے لئے خام مال کی فراہمی ممکن ہو سکی۔ نئی دنیا سے آلو اور مکئی کی فصلوں کی درآمد سے دنیا کی آبادی پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر چین کی آبادی چاول کی فصل کے لئے قابل کاشت رقبہ کی کمی کی وجہ سے قابو میں تھی۔ چین کی آبادی میں، ان نئی فصلوں کی بدولت جو بہت کم رقبے پر کاشت ہو سکتی تھیں، بہت اضافہ ہوا۔ اسی طرح چیچنیا کی آبادی میں نئی دنیا سے مکئی کی آمد سے حیرت انگیز اضافہ ہوا۔

سلطنت روم سے لیکر دو صدیوں قبل تک کے برطانوی سامراج اور دنیا پر موجودہ امریکی غلبہ میں مشترک بات ایک برتر ملک کی قوت ہے جس نے مختلف اقوام کے ایک دوسرے پر انحصار کو نیا رخ دے دیا ہے۔ دنیا بھر کو مختلف اشیاء اور ضروریات زندگی کی فراہمی میں امریکی اور برطانوی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مرکزی کردار ہے۔

آزادانہ تجارت کے پھیلاؤ نے معاشی نمو میں اضافہ کیا ہے جس سے عالمی سطح پر بنائی جانے والی اشیاء کے استعمال اور بین الاقوامی سیاحت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بہترین مثال دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے مما لک چین اور بھارت ہیں۔

ہرچند دنیا کی بیشتر آبادی ابھی بھی غربت کا شکار ہے، لیکن جمہوریت، انسانی حقوق اور آزاد پریس کے تصورات اب عام ہو چکے ہیں۔ انیسو چوہتر سے لے کر اب تک ان ملکوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑہ کر ساٹھ فیصد ہو گئی ہے جہاں کثیرالجماعتی انتخابات کے ذریعے اپنی حکومتوں کا چناؤ کرتی ہیں۔

عالمگیریت اور برق رفتار زمانہ
 انیسویں صدی میں ملکہ وکٹوریا کا ایک پیغام بحرالکاہل کے پار امریکی صدر جیمز بیوکینن تک کیبل کے ذریعے سولہ گھنٹے میں پہنچا۔ آج تحریر، آواز اور تصویر کی شکل میں معلومات ایک ثانیہ میں روشنی کی رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہیں۔



جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورات کی دنیا بھر میں ترویج میں سب سے طاقتور عامل بیسویں صدی کے دوسرے حصہ میں بپا ہونے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے۔ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انیسویں صدی میں ملکہ وکٹوریا کا ایک پیغام بحرالکاہل کے پار امریکی صدر جیمز بیوکینن تک کیبل کے ذریعے سولہ گھنٹے میں پہنچا۔ آج تحریر، آواز اور تصویر کی شکل میں معلومات ایک ثانیہ میں روشنی کی رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہیں۔

نیویارک سے لندن تین منٹ کی کال ایک ڈالر سے بھی کم پڑتی ہے جبکہ انیسو سو تیس میں یہی کال تین سو ڈالر پڑتی تھی۔ مواصلات اور ذرائع آمد و رفت کی قیمت میں اس ڈرامائی کمی نے عام لوگوں کے لئے انفارمیشن کا حصول ممکن بنا دیا ہے۔ اس سے معاشی نمو میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے عام آدمی کے زندگی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔

اس تمام ترقی کے لئے قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔ دنیا بھر میں غربت کی کمی کی وجہ سےماحول پر منفی اثر ہوا ہے۔ زراعت اور جنگلات سے متعلقہ اشیاء کی تجارت کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر کے ’رین فارسٹ‘ میں ایک فیصد کمی ہو رہی ہے۔ ایڈز کی بیماری کا آغاز افریقہ اور جنوبی امریکہ سے ہوا اور اب یہ پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ ہر روز چودہ ہزار افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
عالمگیریت: آلو کا حیرت انگیز سفر
انیسں سو ستانوے میں منیلا سے جاری ہونے والے ’آئی لو یو‘ وائرس سے سات سو ملین ڈالرز کا مالی نقصان ہوا۔گیارہ ستمبر کے ہائی جیکروں نے اپنے آپریشن کے لئے فنڈز کی منتقلی کے لئے الیکٹرونک ذرائع استعمال کیے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے نہ صرف آپس میں رابطہ رکھا بلکہ اپنے ہوائی ٹکٹ بھی خریدے۔ ان حملوں کے بعد سے اب تک اسامہ بن لادن کا دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ سیٹلائٹ ٹی وی ہے۔

نئی ٹیکنالوجی کے مسائل
 ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جب سیاحوں نے نئی دنیا دریافت کی تو اس کے ساتھ ہی چیچک اور انفلوئنزہ جیسی بیماریوں نے مقامی امریکیوں میں ہر چار میں سے تین کو ہلاک کر دیا۔



لیکن ہم اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں توپتہ چلے گا کہ ایسا تو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جب سیاحوں نے نئی دنیا دریافت کی تو اس کے ساتھ ہی چیچک اور انفلوئنزہ جیسی بیماریوں نے مقامی امریکیوں میں ہر چار میں سے تین کو ہلاک کر دیا ۔ اسی طرح امریکہ، ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ میں کالونیز بنانے کے عمل نے وہاں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ وہاں کے روایتی سماجی ڈھانچہ اور سیاسی نظام کو بھی تباہ کر دیا۔

تارکین وطن - عالمگیریت کے معمار
امریکہ نے اس دنیا کے آپس میں ملاپ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ خود بھی جدید عالمگیریت کی پیداوار ہے۔ ساٹھ ملین لوگوں کی بڑی اکثریت نے انیسویں صدی میں عالمگیریت کے ابتدائی زمانے میں اپنے گھر بار چھوڑ کر امریکہ ہجرت کی۔ تارکین وطن اور غلاموں نے تاریخ کی امیر ترین قوم کی تعمیر کی۔ انہوں نے بھاپ سے چلنے والے انجن اور ’وِنڈ مِل‘ جیسے وسائل کو استعمال کیا اور دنیا میں عالمگیریت کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی فتح اور مارشل پلان کے نفاذ سے اب تک امریکہ کی معاشی اور فوجی طاقت دنیا کے دور دراز کونوں تک پھیل گئی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور دیوار برلن کے گرنے سی دنیا میں نظریاتی تفریق کا خاتمہ ہوگیا اور عالمگیریت کو ایک نئی توانائی ملی۔ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ بہت سے لوگ عالمگیریت کو ’امیریکنائزیشن‘ کے مترادف سمجھتے ہیں۔

غریب ممالک کو فائدہ؟
 ترقی پذیر ممالک کو عالمگیریت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا بلکہ کچھ معاملوں میں تو ان کی حالت پہلے سی بھی خراب ہوگئی ہے۔ غربت کی مجموعی شرح میں خاتمے کے باوجود دنیا کی تین چوتھائی آبادی ابھی بھی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔



سرد جنگ کے خاتمے نے امیر اور ترقی پذیر ممالک کے مابین موجود فرق کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے بہتر صنعتی ڈھانچہ، اداروں اور تعلیم کی وجہ سے اور درمیانی آمدنی والے ممالک نے آزاد معاشی پالیسیوں کی بناء پر عالمگیریت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کو عالمگیریت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا بلکہ کچھ معاملوں میں تو ان کی حالت پہلے سی بھی خراب ہوگئی ہے۔ غربت کی مجموعی شرح میں خاتمے کے باوجود دنیا کی تین چوتھائی آبادی ابھی بھی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔

عالمگیریت کے اصول اور ان اصولوں پر عمل درآمد کروانے والے عالمی ادارے جیسے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی تشکیل بھی امیر اور غریب قوموں کے درمیان موجود طاقت کے فرق کی غمازی کرتے ہیں۔

دنیا میں معلومات کے آزادانہ تبادلے کی وجہ غریب ممالک اب امیر اور ترقی پذیر ممالک کے مابین موجود فرق کے بارے میں بڑی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس آگہی کا اظہار ونیزویلا سے لے کر فلپائن تک ہونے والے امریکہ مخالف مظاہروں سےہوتا ہے۔

دنیا کی اشیاء اور نظریات کے ذریعے یکجہتی کے ناقد اور حمایتی دونوں موجود ہیں۔ ایرانی طلباء امریکی انداز زندگی اپنانا چاہتے ہیں تو مغرب میں بہت سے لوگ عالمگیریت کو سرمایا دارانہ نظام یعنی کیپِٹلزم کی علامت قرار دے کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مغرب کی قیادت میں عالمگیریت کا مقصد اسلام کو تباہ کرنا ہے۔

ان تمام عوامل کا عالمگیریت پر کیا اثر ہو گا؟ کیا عالمگیریت بڑھتی ہوئی عالمی بے اطمینانی اور دہشت گردی کے خطرے کے سامنے گھٹنے ٹیک دی گی؟ بلاشبہ ماضی میں بھی عالمگیریت کی رفتار میں کمی واقع ہوئی۔ دونوں عالمی جنگوں کے درمیان قیمتوں میں اضافہ اور آزاد نقل و حرکت کے باعث آزادانہ تجارت اور لوگوں کے نقل و حرکت میں سستی آ ئی۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی نازیوں اور جاپان کے خلاف فتح سے عالمگیریت کی راہیں کھل گئیں اور تجارت اور سفر میں بھی بہت اضافہ ہوا۔

عالمگیریت کے لئے خطرات
 عالمی یکجہتی کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ یورپ میں آنے والے تارکین وطن کے خلاف جذبات، مغرب کی زراعتی سبسِڈی، انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور گیارہ ستمبر کے بعد سے امریکہ کی سخت ویزہ پالیسی ہیں۔



عالمی یکجہتی کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ یورپ میں آنے والے تارکین وطن کے خلاف جذبات، مغرب کی زراعتی سبسِڈی، انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور گیارہ ستمبر کے بعد سے امریکہ کی سخت ویزہ پالیسی ہیں۔ خوشحالی کی تلاش میں لوگ اب بھی دوسرے ممالک میں کاروبار پھیلاتے ہیں۔ دوسروں کے بارے میں وہی تحیر جس نے ابن بطوطہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا، وہ اب بھی لاکھوں لوگوں کو سیاحت، غیر ملکی فلمیں دیکھنے، مختلف کھانے کھانےاور بین الاقوامی موسیقی اور کھیلوں سے لطف اندوز ہونے پر مائل کرتا ہے۔

ماضی اور آج کی عالمگیریت کے درمیان فرق رفتار اور بالکل واضح نظر آنے کا ہے۔ اپنے تمام تر مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ عالمگیریت کا تاریخی عمل جاری رہےگا اور مزید واضح ہوتا جائے گا۔ ہمارا کام ، چاہے ہم شہری ہوں یا اسکالر یا مدبر، یہ ہونا چاہئے کہ ہم عالمگیریت کو سمجھیں اور آگے بڑھائیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اس کے مثبت پہلوؤں کی حوصلہ افزائی کریں اور منفی پہلوؤں سے صرف نظر کریں۔

'بچوں کے ساتھ بچوں جیسی ہو جاتی ہے سندھ'

سندھ بچوں کے ساتھ بچوں جیسی ہو جاتی ہے. یہ کہنا ہے ڈاکٹر نسرگا کا جن سات سال کی بیٹی کے ساتھ پی وی سندھو گزشتہ دنوں بیڈمنٹن کھیل رہی تھی.

ڈاکٹر نسرگا كارڈيولجسٹ ہیں اور انہوں نے فیس بک پر یہ ویڈیو اپ لوڈ کیا تھا جسے بہت سے لوگ اسٹاک کر رہے ہیں.
سے جب بی بی سی نے ان سے رابطہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے. انہوں نے بتایا کہ سندھ کے خاندان کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور سندھو اکثر ان کے گھر آتی ہے.

وہ کہتے ہیں، '' اولمپکس کے لئے روانہ ہونے سے قریب ہفتہ بھر پہلے ہی سندھو ہمارے گھر آئی تھی تو میری بچی نے سندھو کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلنا چاہا. دونوں کھیلنے لگے تو میری بیوی پرتيكا نے یہ ویڈیو بنا لیا. ''
ڈاکٹر نسرگا کہتے ہیں، '' سندھو کی یہ خاصیت ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ بچوں جیسی ہو جاتی ہے. وہ میری سات سالہ بیٹی پراجلا اور چھ سال کی نلمپا کے ساتھ ایک دم بچی جیسے ہی رہتی ہے. تینوں فوٹو كھچواتے ہیں اور مزے کرتے ہیں. ''

سے انہوں نے بتایا کہ ان کی بچی بھی سندھو کے ساتھ پلےلا گوپی چند کی اکیڈیمی میں بیڈمنٹن کی تربیت لیتی ہے.
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چھوٹی بچی پورے کانفیڈنس سے سندھو کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی ہے.
ویڈیو میں سندھو کے والدین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے.

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں

ہند، سندھ اور پنجاب میں سترھویں اور اٹھارویں صدی کا دور کتنا پر آشوب لیکن کتنا عظیم الشان تھا۔ اسی دور میں مغلیہ سلطنت اورنگزیب عالمگیر کی مبینہ ’مذہبی جنونیت‘ کے پاؤں کے نیچے چرمرائی اور پھر نااہل بادشاہوں کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔

یہی وہ عہد تھا جس نے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ جس نے ایک دن ایک رات میں نادر شاہ کے ہاتھوں ڈیڑھ لاکھ دلی والوں کے گلے کٹتے دیکھے لیکن یہی دور تھا جس نے بلھے شاہ (1758-1680) اور وارث شاہ (1798-1722) کو جنم دیا۔ جس میں شاہ لطیف بھٹائی (1752-1689) اور سچل سرمت (1826-1739) نے سندھ کی تہذیب پر ان مٹ نقش چھوڑے اور جس نے خواجہ میر درد (1785-1721) اور میر تقی میر (1810-1723) کے ہاتھوں اردو شاعری کی عظیم روایات کی بنیاد پڑتے دیکھی۔

اس بے مثال دور کے عظیم ترین ہم عصر مفکر شاعروں میں یہ اعزاز صرف بلھے شاہ کو ہی حاصل ہوا کہ ان کی آواز شمالی ہندوستان کے ہر کونے میں اور ہر لہجے میں گونجی۔ ان کی کافیاں اور دوہڑے پنجاب میں ہی نہیں سندھ، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی عوام کے دل کی آواز بن گئے ہیں۔

بلھے شاہ سخی درویش کے ہاں پیدا ہوئے اور ان کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ ان کے والد اچ شریف چھوڑ کر کے کچھ عرصے ملک وال ضلع ساہیوال میں رہے جہاں بلھے شاہ کا جنم ہوا۔لیکن چند مہینوں میں ہی پنڈپانڈ و ضلع لاہور (قصور کاہنہ روڈ پر واقع) چلے گئے جہاں انہوں نے مسجد کی امامت کر لی اور بچوں کو پڑھانے لگے۔

بلھے شاہ کا بچپن اسی گاؤں میں مویشی چراتے گزرا۔ گاؤں میں امام مسجد کی حیثیت دوسرے دستکاروں کی طرح ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بلھے شاہ نے زندگی کو بچپن ہی سے پسے ہوئے عوام کی نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ یہیں ان کے ساتھ وابستہ پہلی کرامت کا ذکر آتا ہے۔

ان پر جب الزام لگا کہ انہوں نے اپنے مویشیوں کی نگرانی نہ کی اور گاؤں کے زمین دار جیون خان کی فصل اجاڑی تو بلھے شاہ نے فصل کو پھر ہری کر دیا۔ یہ واقعہ تھا یا عوام کی بلھے شاہ سے محبت میں بنائی گئی داستان لیکن ایک حقیقت ہے کہ بلھے شاہ نے پنجابی میں فکروفن کی اجڑی ہوئی فصل کو پھر سے لہلہا دیا۔

انہوں نے مذہبوں کے ملبے کے نیچے دبے انسانوں کے لیے انسانیت کے لیے ایک نئی کھیتی بوئی۔
بلھے شاہ کی غیر معمولی ذہانت ہی ہوگی کہ گاؤں کے امام مسجد والد کی مجبوریوں کے باوجود وہ قصور کے مشہور زمانہ معلم حافظ غلام مرتضے کے مدرسے میں پہنچ گئے جہاں انہوں نے قرآن، حدیث، فقہ اور منطق کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان کی ان علوم پر دسترس کا ثبوت ہے کہ انہیں اپنے استاد کے مدرسے میں پڑھانے کی دعوت دی گئی۔

لیکن علم کی کتابی دنیا نے ان کی بے چین فکر کو ٹکنے نہ دیا اور وہ مجذوبانہ حالات میں جابجا گرداں رہے۔ انہوں نے بر ملا کہا کہ ’علموں بس کریں اویار۔ اکو الف تیرے درکار‘

کہتے ہیں اسی مجذوبانہ حالت میں ان کے منہ سے نکلا ’میں اللہ‘ اور مذہب کے کوتوال انہیں دربار فاضلیہ کے شیخ فاضل الدین کے پاس لے گئے جنہوں نے بلھے شاہ کا دفاع کرنے کے لیے لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے کہ یہ الھا (کچا) ہے۔ اس سے کہو کہ شاہ عنائیت کے پاس جائے اور پک کر آئے۔ اور یہیں سے اس عظیم رشتے کا آغاز ہوا جس میں بلھے شاہ نے اپنی اعلیٰ سید ذات کو ٹھکرایا اور اپنی تخلیق نو کی۔

ان کے مرشد شاہ عنائیت آرائیں ذات کے تھے جو کمتر سمجھی جاتی تھی۔ بلھے شاہ کو جب اس پر طعنے دیئے گئے تو انہوں نے کہا کہ ’جے کوئی سید آکھے دوزخ ملن سزائیں۔۔ جے کوئی سانوں کہے ارائیں بہشتیں پائیں‘۔ اگر شاہ عنائت کبھی کسی بات پر خفا ہوئے تو بلھے شاہ نے اپنی شاعری کے الفاظ میں رقص کناں ہو کر (تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا) یا حقیقی طور پر رقص کرتے ہوئے انہیں منایا۔

بلھے شاہ نے کتابی اور ملاؤں پنڈتوں کے گھسے گھسائے علم کو انسانی فلاح اور برادری کے لیے مضرقرار دیتے ہوئے کہا کہ :
علموں پے قضیئے ہور اکھیں والے انھے کور
پھڑھ لیے سادتے چھڈے چور دوہیں جہانیں ہویا خوار
علموں بس کریں اویار اکوالف تینوں درکار

(موجودہ علمِ زمانہ نے مزید مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ اس علم سے آنکھوں والے نا بینا ہو گئے ہیں، چوروں کو چھوڑ کر شفاف لوگوں کی پکڑ لیا جاتا ہے۔ یہی دونوں دنیاؤں میں باعث خواری ہے۔ اس لیے علم سے دوری بہتر ہے اور صرف ایک الف ہی کافی ہے۔)

بلھے شاہ سے پہلے بھی اہل طریقت اور اہل شریعت کی جنگ جاری تھی۔ شاہ حسین نے بھی کہا تھا کہ مجھے قاضی اور ملا کے دیئے مشورے راس نہیں آتے لیکن جس جرات اور دلیری سے بلھے شاہ نے مذہب کے ٹھیکیداروں کو رد کیا اس کی مثال سلطان باہو اور وارث شاہ کے علاوہ نہ ماضی میں ملتی ہے اور نہ ہی حال میں۔
انہوں نے ملاؤں کی اصلیت بیان کرتے ہوئے کہا:

ملاں تے مشالچی دوہاں اکو چت
لوکاں کردے چاننا آپ ہنیرے وچ
(ملا اور مشعل بردار ایک جیسے ہیں کہ لوگوں کو روشنی دیتے ہیں اور خود اندھیرے میں رہتے ہیں۔)

یہ صرف بلھے شاہ ہی تھا جس نے مسجد سے بھاگ کر ٹھاکر کے دوارے جانے کا اعلان کر کے رام اور رحیم کے جھگڑے کو ختم کر دیا۔
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا مسجد کولوں جیوڑاڈ ریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا جتھے وجدے ناد ہزار
(جب میں نے عشق کا سبق پڑھا تو مسجد سے دل ڈر گیا۔ میں ہندو ٹھاکر کے دوارے چلا گیا جہاں ہزاروں ناد گونجتے ہیں۔)
بلھے شاہ نے اورنگزیب کی تنگ نظر دیکھی، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی رہنما شہباز خان کی چیرہ دستیاں برداشت کیں۔ اپنے ہی مہربان مولوی محی الدین کی زبان سے قوالی کے خلاف فتویٰ سنا پھر ان کو پچھتا کر فتویٰ واپس لیتے دیکھا۔ شہر بدری کے احکام سنے، دوسروں کے ڈیروں پر زندگی کے مشکل دن بھی کاٹے۔
لاہور اور قصور کو بار بار تباہ ہوتے دیکھا۔ سکھ جہادی بندہ بہادر کی تباہیوں کا تجربہ کیا اور پھر بندہ بہادر کے بیٹے کو اسی کی گود میں بٹھا کر اس کے ہاتھوں سے بوٹی بوٹی کروانے کی دردناک داستان سنی، اپنے زمانے کے ہر بادشاہ کے ہاتھوں سگے بھائیوں اور بھتیجوں کے قتل ہونے کا بار بار دہرایا جانے والا ڈرامہ دیکھا، بیٹے کو باپ اور بیٹی کو ماں کے خلاف سازشوں میں ملوث پایا اور زمانے کے اسی الٹ پلٹ ہوتے شب و روز میں زندگی کا راز پایا۔
الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے

کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے

(الٹے زمانے آگئے ہیں اور اسی سے ہم نے سجن یا زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے اتنے بدلے ہیں کہ کوے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو فتح کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)

وہ زندگی میں ہر جگہ کشمکش دیکھتے ہیں۔ وہ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ جاری جنگ کو حلوائی کی دکان پر رکھی مٹائیوں کی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میں بھی (کپوری ریوڑی کیونکر لڑے پتا سے نال)۔
لیکن بلھے شاہ اس کشمکش کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں۔
کتے رام داس کتے فتح محمد ایہوقدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا وچوں نکل پیا کوئی ہور
(کہیں اس کا نام رام داس ہے اور کہیں فتح محمد۔ لیکن ان ظاہری جھگڑوں کو ختم کر دیا جائے تو اصل مسئلہ کوئی اور ہے۔)
ان کی جسمانی موت پر ملاؤں نے ان کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کے ان کے امر ہونے پر مہر تصدیق کر دی۔ بلھے شاہ نے تو خود کہا تھا ’بلھے شاہ اسیں مرنا نا ہیں گور پیا کوئی ہور‘ (بلھے شاہ ہم مرنے والے نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے)۔