Saturday, April 24, 2021

Welcome to Pakistan

 Pakistan is open for travellers, please feel free to check https://www.travel-culture.com for details.




Saturday, May 13, 2017

ایڈمرل نندا نے یوں کیا تھا کراچی کو 'تباہ'

وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ ایڈمرل ایس ایم نندا
1971 میں بھارت پاکستان جنگ شروع ہونے سے دو ماہ قبل اکتوبر 1971 میں بحریہ صدر ایڈمرل ایس ایم نندا وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے گئے.
بحریہ کی تیاریوں کے بارے میں بتانے کے بعد انہوں نے مسز گاندھی سے پوچھا اگر بحریہ کراچی پر حملہ کرے تو کیا اس سے حکومت کو سیاسی طور پر کوئی اعتراض ہو سکتی ہے.
اندرا گاندھی نے ہاں یا نہ کہنے کے بجائے سوال پوچھا کہ آپ ایسا پوچھ کیوں رہے ہیں؟ نندا نے جواب دیا کہ 1965 میں بحریہ سے خاص طور سے کہا گیا تھا کہ وہ بھارتی سمندری حدود سے باہر کوئی کارروائی نہ کرے، جس سے ان کے سامنے کئی پریشانیاں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں.

اندرا گاندھی نے کچھ دیر سوچا اور کہا، "ویل ایڈمرل، اف دےير از ع وار، دےر از ع وار." یعنی اگر يددھ ہے تو يددھ ہے.
ایڈمرل نندا نے انہیں شکریہ ادا کیا اور کہا، "میڈم مجھے میرا جواب مل گیا."
اندرا گاندھی سے ایڈمرل نندا کی دو ٹوک
اس سے ایک سال پہلے، ایڈمرل نے اس وقت کے مشہور اخبار بلٹذ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا، "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو میں اسے پاکستان کے سب سے بڑے بندرگاہ کراچی تک لے جاؤں گا. میں اس بندرگاہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، کیونکہ میرا بچپن وہاں گزرا ہے. "
1971 میں جب جنگ شروع ہوئی تو ایڈمرل نندا نے اپنا وہ وعدہ پورا کر دکھایا. ایک دسمبر، 1971 کو ایڈمرل نندا نے سيلڈ لفافے کے ذریعہ تمام جنگی کو کراچی پر حملہ کرنے کا حکم دیا.

مکمل ویسٹرن فليٹ دو دسمبر کو ہی ممبئی سے کوچ کر گیا. ان سے کہا گیا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد ہی وہ اس سيلڈ لفافے کو کھولیں. منصوبہ بندی تھی کہ بحری بیڑا دن کے دوران کراچی سے 250 کلومیٹر کے ڈايميٹر پر رہے گا اور شام ہوتے ہوتے اس کے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ جائے گا.
کراچی پر ایسے کیا حملہ
اندھیرے میں حملہ کرنے کے بعد پو پھٹنے سے پہلے وہ اپنی تیز تر رفتار سے چلتے ہوئے کراچی سے 150 کلومیٹر دور آئے گا، تاکہ وہ پاکستانی بمباروں کی پہنچ سے باہر آ جائے.
اور حملہ بھی روس کی اوسا کلاس میزائل بوٹ سے کیا جائے گا. وہ وہاں خود سے چل کر نہیں جائیں گی، بلکہ انہیں نالن کی رسیوں سے کھینچ کر لے جایا جائے گا. ایڈمرل نندا کی اس دکھ بہادر منصوبہ بندی کا بحریہ کے اندر ہی کافی مخالفت ہوئی.

ایڈمرل ایس ایم نندا اپنی سوانح عمری، 'دی مین ہو بمڈ کراچی' میں لکھتے ہیں، "مغربی کمان کے سربراہ وائس ایڈمرل کوہلی نے وزیر دفاع کے سامنے اپنا پرےذےٹےشن دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی بحری جہازوں کے پاس ہم سے زیادہ ہتھیار ہیں اور ان کی فائرنگ صلاحیت بھی ہم بہتر ہے. لیکن ہمارے چیف کا کہنا ہے کہ ہمیں کراچی پر حملہ کرنا ہی ہے. "
نندا نے لکھا ہے، '' کوہلی کے کہنے کا انداز یہ تھا جیسے انہیں کمزور وسائل کے ساتھ کراچی پر حملہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے اور اگر یہ حملہ کامیاب نہیں ہوتا ہے تو اس کے لئے انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے. ''

کتاب کے مطابق، '' وہاں موجود ہر شخص کی نگاہ میری طرف اٹھی، لیکن میں چپ رہا. بعد میں میں نے کوہلی کو بلا کر کہا کہ اگر آپ اس کی منصوبہ بندی سے متفق نہیں ہیں، تو میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں وزیر دفاع کے پاس جا کر کہوں کہ آپ سے مغربی بیڑے کی کمان واپس لے لی جائے. "
بعد میں ایڈمرل کوہلی اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ انہیں جو بھی حکم دیا جائے گا، اسے وہ پورا کریں گے. پہلا حملہ چار دسمبر کی رات کو میزائل بوٹ نپٹ، نرگھٹ اور بہادر نے کیا. انہوں نے نہ صرف پاکستانی ودونسک 'خیبر' اور مائن برش 'محافظ' کو ڈبویا، بلکہ كماري تیل ٹینک میں بھی آگ لگا دی.

دوسرا حملہ آٹھ دسمبر کی رات میں کیا گیا. اس بار اکیلی میزائل بوٹ تباہی، دو فرگےٹس ترشول اور تلوار کے ساتھ گئی. تباہی سے میزائل فائر کرنے کی ذمہ داری لیفٹیننٹ کمانڈر فتح جےرتھ کی تھی.
جےرتھ یاد کرتے ہیں، "میں نے اپنی آخری میزائل كماري تیل ٹینکوں پر چھوڑی. آپریشن ختم ہوتے ہی میں نے اپنے کمانڈنگ افسر کو پیغام بھیجا، 'فور پجس ہیپی ان دی گھوںسلا. رجنگ.' جیسے ہی میں نے اوپر آنے لگا، ان کا جواب آیا، 'اس سے اچھی دیوالی ہم نے آج تک نہیں دیکھی.' جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا، اس منظر کو میں آپ کو بتا نہیں سکتا. "
غازی کے ڈوبنے کا کیا تھا اصلی سچ؟
"آپ اسے خوفناک کہہ سکتے ہیں، خوفناک کہہ سکتے ہیں. شمال سے لے کر پہلے تک سارے افق میں آگ لگی ہوئی تھی اور آگ کی لپٹیں 40، 60 ڈگری اوپر تک اٹھ رہی تھیں. سچ بتاؤں میرے لئے یہ خوشی کی بات نہیں تھی . ایک سیکنڈ کے لئے تو میں وہیں جم کر رہ گیا. پھر میں نے دوسری طرف اپنا منہ کر لیا. یہ خوشگوار منظر نہیں تھا. "
پاکستان کو ایسے دیا جھانسہ

ایڈمرل نندا کا ایک اور غیر معمولی خیال تھا کہ کوئی بھی ہندوستانی جہاز بندرگاہ میں لنگر ڈالے نہ رہے تاکہ پاکستانی پنڈببيا انہیں اپنا نشانہ نہ بنا سکے.
بھارتی بحریہ کے سابق افسر اور ایڈمرل نندا کے بھانجے کمانڈر ارون سہگل یاد کرتے ہیں، 'جب جنگ چھڑی تو ہم کراچی سے 150 کلومیٹر جنوب میں تھے. ایک جگہ پر تمام منصوبہ بندی کی جا رہی تھی. خفیہ خبریں آ رہی تھیں. "
"ابھی حال ہی میں را کے افسر کی ایک کتاب شائع ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ نوسےنك حکام نے ایڈمرل نندا سے کہا کہ سر آپ تو یاد ہے کہ کراچی بندرگاہ کس طرح کا ہے. لیکن ہمیں کراچی بندرگاہ کی تصاویر چاہئے. ''
کتاب کے مطابق، '' ایڈمرل نندا نے دو فوٹوگرافرو کو ایک مرچنٹ جہاز میں کراچی بھیجا. جہاز کے ڈاکٹر سے کہا گیا کہ آپ انہیں مریض بنا کر اپنے ساتھ لے جائیے. انہوں نے کراچی پورٹ پر اتر کر فوٹو لیں اور دبئی ہوتے ہوئے واپس بھارت لوٹے. میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ تصاویر دیکھی ہیں. اس طرح کی چیزوں کی پلاننگ چھ سات مہینوں سے ہو رہی تھیں. "
'اف دےر از ع وار، دےر از ع وار'
ایڈمرل نندا نے 1971 میں دوسرا بڑا کام کیا بھارتی ومانواهك جہاز آئی این ایس وكرات کو پاکستانی آبدوزوں سے بچانے کا. انہوں نے وكرات کو انڈمان میں تعینات کیا اور پاکستانیوں کی آنکھ میں دھول جھونکی کہ وہ وشاکھاپٹنم میں کھڑا ہوا ہے.
اس وقت مشرقی بیڑے کے كماڈگ افسر ایڈمرل کرشنن اپنی سوانح عمری 'بیچنے والے کی کہانی' میں لکھتے ہیں، "وشاکھاپٹنم میں ہم نے كاٹرےكٹرس کو خوب سارے راشن کا آرڈر دیا ... خاص طور سے گوشت اور سبزیوں کے. مقصد تھا کہ یہ خبر پھیلے کہ وكرات وشاکھاپٹنم میں کھڑا ہے. مجھے امید تھی کہ وہاں گھوم رہے پاکستانی جاسوس ان افواهو کو پاکستان تک پہنچائیں. "
فتح جےرتھ

"یہی نہیں میں نے انز راجپوت کو وكرات کے جھانسے کے طور پر استعمال کیا. اس کو ہم نے وشاکھاپٹنم سے 160 کلومیٹر دور بھیج دیا. اس کو خوب سارے سگنل دیے گئے اور اس کو کھل کر استعمال کرنے کے لئے کہا گیا. ''
انہوں نے لکھا ہے، '' ہیوی سگنل ٹریفک کا مقصد تھا پاکستانیوں کو اشارہ دینا کہ یہاں ایک بڑا جہاز کھڑا ہے. ہم نے جان بوجھ کر وكرات کے ایک سیلر سے ایک پرائیویٹ ٹےلگرام کروایا جس میں اس نے اپنی شدید بیمار ماں حال چال پوچھا. "
"اس سب کا نتیجہ یہ رہا کہ کراچی سے پاکستانی آبدوز غازی کے لئے پیغام بھیجا گیا، 'خفیہ اطلاعات بتا رہی ہیں کہ کیریئر بندرگاہ پر کھڑا ہے.' نتیجہ یہ ہوا کہ پی این ایس غازی اس ٹوہ میں وہاں پہنچی. اس میں دھماکہ ہوا اور وہ وہیں ڈوب گئی. "
اس جنگ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ نے اپنا ساتواں بیڑا خلیج بنگال میں بھیجنے کا فیصلہ کیا. ایڈمرل ایس ایم نندا اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، "وزیر اعظم نے مجھے بلا کر پوچھا کہ کیا آپ نے یہ خبر سنی ہے کہ امریکہ کا ساتواں بیڑا خلیج بنگال میں آ رہا ہے؟ میں نے کہا، 'جی ہاں.'"
اس طرح سے ہوئی تھی تیاری
"انہوں نے پوچھا، 'تم کیا کرنے جا رہے ہیں؟' میں نے جواب دیا، 'کیا آپ سمجھتی ہیں امریکہ بھارت کے ساتھ جنگ ​​کرنا چاہتا؟ اگر وہ ہمارے بحری جہازوں پر حملہ کرتے ہیں تو یہ جنگ کی کارروائی ہوگی.' تب وہ بولي، 'کیا کیا جانا چاہئے؟'
میں نے جواب دیا، 'میڈم وہ ہم پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن ہمیں یقین رکھیں گے. میں اپنے جلپوتو کے کپتانوں کو حکم دے رہا ہوں کہ اگر ان کا سامنا امریکی جہازوں سے ہو تو وہ اپنی اڈےٹٹيذ ایکسچینج کریں اور انہیں اپنے برتن پر مشروبات کے لئے مدعو کرے. '
وہ ہنسنے لگیں. میں نے پھر ایڈمرل کرشنن سے کہا کہ ہمارے سارے جنگ جہاز کو اس بارے میں بتا دیا جائے. "
ارون سہگل

ایڈمرل نندا کی شخصیت کی خوبی تھی اس ماونيي طرف. وہ چھوٹے سے چھوٹے نااخت کی رائے لیتے اور اس کا حال چال پوچھتے.
ان نزدیک سے جاننے والے وائس ایڈمرل ایس کے چاند یاد کرتے ہیں، "مجھے یاد ہے 1968 میں میں نے لیفٹیننٹ کمانڈر تھا اور ممبئی میں تعینات تھا اور نندا پرچم افسر کمانڈنگ ان چیف تھے وائس ایڈمرل کے طور پر. ''
'' میں نے ان سے کہا کہ میری بیوی اور میں آپ کو گھر میں کھانے پر بلانا چاہتا ہوں. انہوں نے کہا، میں ضرور آؤں گا اور ایک ہفتے بعد وہ اپنی بیوی سمیت میرے گھر پر آئے اور ہمارے ساتھ رات کا کھانا کھایا. "
ایڈمرل نندا کو ہر چھوٹی چیز جو خراب ہو جاتی تھی، اس کو ٹھیک کرنے کا شوق تھا. ارون سہگل یاد کرتے ہیں، "وہ سب سے چھوٹا کام اپنے آپ کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے. ''
انہوں نے کہا، '' میں دیکھا کرتا تھا کہ وہ کچن میں جاکر پلیٹوں کو خود دھو صفائی سے لگایا کرتے تھے. گھر کی مکسی یا ٹیپ ریکارڈر خراب ہوتا تھا تو اس کو ٹھیک کرنے کا بیڑا بھی ایڈمرل نندا اٹھاتے تھے. "
"ایک بار میں ان کے ڈیفنس کالونی والے گھر گیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ وہ اپنے سونے کے کمرے کے دروازے اپنے ہاتھ سے پینٹ کر رہے ہیں اور ان کے تمام جسم پر سفید پینٹ لگا ہوا ہے. ہم لوگ خوفزدہ کرتے تھے کہ کہیں ان کے گھر کے سامنے ہماری کار نہ خراب ہو جائے. اگر ایسا ہوتا تو وہ اس کا ایک ایک پرزہ کھول ڈالتے. "
بحریہ کے لوگ انہیں اس بات کے لئے بھی یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے نیوی میں شارٹس پہننے اور داڑھی نہ رکھنے کا چلن بند کروایا. ایڈمرل چاند یاد کرتے ہیں، "برطانوی نیوی کے زمانے سے ہمارے یہاں روایت چلی آ رہی تھی کہ ہم لوگ شارٹس پہنتے تھے. ایڈمرل نندا نے ہمیں اختیار دے دیا کہ آپ چاہے تو شارٹس پہن لو یا پھر فل پتلون."
قوانین کو آسان بنایا
ہم لوگ یہ فیصلہ سن کر بہت خوش ہوئے کیونکہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ہماری ٹاںگے پتلی ہونے لگتی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی انہیں دیکھے. دوسری چیز جب ہمارے راجپوت فوجی اپنے گھر جاتے تھے تو انہیں اپنی داڑھی بڑھانی پڑتی تھی کیونکہ بحریہ میں داڑھی بڑھانے کی اجازت نہیں تھی.
وہ دس پندرہ دن اپنے گھر نہیں جاتے تھے کہ اس وقت تک ان موچھے یا داڑھی نکل آئے. جب ایڈمرل نندا کو یہ پریشانی بتائی گئی تو انہوں نے داڑھی نہ رکھنے کے قوانین کو تبدیل کر دیا.
امیتا مہرا

ایڈمرل نندا کو عورتوں کو رجھانے کے فن بھی بخوبی آتی تھی. ایک بار فيلڈمارشل سیم مانےكش نے انہیں خط لکھ کر کہا تھا کہ اس معاملے میں آپ میرے مالک ہیں.
ایڈمرل نندا کی نواسی امیتا مہرا بتاتی ہیں، "ان کی سب سے اچھی دوست میری نانی کی دوست ہوا کرتی تھیں. وہ لیڈیز مین تھے. انہیں وہ سارے چالوں پتہ تھے جس عورتیں خوش ہوتی تھیں. ''
انہوں نے کہا، '' کسی عورت کی تعریف کر جادو کر دینا ان بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. وہ انہیں گلے لگانے اور ہاتھ ملاتے. انہیں رقص کرنے کا بہت غم تھا اور تمام عورتیں ان کے ساتھ رقص کرنے کے لئے بیتاب رہتی تھیں. "

بھارتی بحریہ کو خود کفیل بنانے میں بھی ایڈمرل نندا کی بہت بڑی کردار تھا. یہ ان کی دوردرشتا کا نتیجہ تھا کہ آج بھارتی بحریہ 'بیارس نیوی' سے 'بلڈروں نیوی' بن گئی ہے.
ایڈمرل ایس کے چاند کہتے ہیں، "ایڈمرل نندا نے جب دیکھا کہ ہم باہر سے برتن منگوا رہے ہیں تو انہوں نے ليےڈر پراجیکٹ شروع کروایا مذگاو دستاویزات میں. شروع میں ڈیزائن انہوں نے برطانیہ سے لیا. بعد میں انہوں نے بھارتی ڈیزائنرز کو بہت فروغ دیا. ''
انہوں نے کہا، '' اب حالات یہاں تک ہو گئے ہیں کہ ہم ومانواهك بھی اپنے یہاں بنا سکتے ہیں. پنڈببيا اب بھی ضرور باہر سے آتی ہیں لیکن باقی تمام جہاز یہیں ڈیزائن ہوتے اور بنتے ہیں. اس کی شروعات نندا صاحب نے کی تھی. "

Tuesday, March 14, 2017

جب 16 سال کی لڑکی کو دل دے بیٹھے تھے جناح

A very Interesting article about Quaid E Azam Mohammad Ali Jinnah & His wife Rattue Jinnah

وہ شادی جس نے ہندوستان کو ہلا دیا

جب ناشتے کی میز پر ممبئی کے بڑے رسو میں سے ایک سر دنش چھوٹے نے اپنے عزیز اخبار بمبئی کرانکل کا آٹھواں مرکت کھولا تو ایک خبر پر نظر پڑتے ہی اخبار ان کے ہاتھ سے نیچے گر گیا.
تاریخ تھی 20 اپریل، 1918 اور خبر تھی کہ گزشتہ شام محمد علی جناح نے سر دنش کی بیٹی لیڈی رت سے شادی کر لی. کہانی شروع ہوئی تھی دو سال پہلے جب سر دنش نے اپنے دوست اور وکیل محمد علی جناح کو دارجلنگ آنے کی دعوت دی 
تھی.

وہاں پر دنش کی 16 سالہ بیٹی رت بھی موجود تھیں، جن کا شمار اس زمانے میں ممبئی کی سب سے حسین لڑکیوں میں ہوا کرتا تھا. جناح ان دنوں بھارتی سیاست کے سربراہی کو چھونے کے بالکل قریب تھے.
حالانکہ اس وقت ان کی عمر 40 سال کی تھی، لیکن دارجلنگ کی برف سے ڈھکی خاموش چوٹیوں اور رت کے بلا کے حسن نے ایسا سما باندھا کہ رت اور جناح ایک دوسرے کی محبت لوپ میں گرفتار ہو گئے.
ٹیگور اور وکٹوریہ کی محبت کا وہ افسانہ

جب اردو نے کروایا ملک کا بٹوارہ

انہوں نے اسی سفر کے دوران سر دنش چھوٹے سے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا. 'مسٹر اور مسز جننا- دی مےرےج دیٹ شك انڈیا' کی مصنفہ شیلا ریڈی بتاتی ہیں، "دارجلنگ میں ہی ایک بار رات کے کھانے کے بعد جناح نے سر دنش سے سوال کیا کہ دو مذاہب کے درمیان شادی کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں ؟ "

جناح کی پیشکش

رت کے والد نے چھوٹتے ہی جواب دیا کہ اس سے قومی اتحاد قائم کرنے میں مدد ملے گی. آپ کے سوال کا اس سے اچھا جواب تو خود جناح بھی نہیں دے سکتے تھے. انہوں نے ایک لفظ بھی ضائع نہ کرتے ہوئے دنش سے کہا کہ وہ ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں.

جناح کی اس پیشکش سے دنش غصے سے پاگل ہو گئے. انہوں نے ان سے اسی وقت اپنا گھر چھوڑ دینے کے لئے کہا. جناح نے اس مسئلے پر پوری شدت سے پیروی کی، لیکن وہ دنش کو منع نہیں سکے. '
دو مذاہب کے درمیان دوستی کا ان کا فارمولا پہلے ہی ٹیسٹ میں ناکام ہو گیا. اس کے بعد دنش نے ان سے کبھی بات نہیں کی اور رت پر بھی پابندی لگا دی کہ جب تک وہ ان کے گھر میں رہ رہی ہیں، وہ جناح سے کبھی نہیں ملیں گی.

جناح کا سوال سیدھا سا تھا اور رت کے والد کا جواب بھی اتنا ہی فلیٹ.
اور تو اور انہوں نے عدالت سے بھی حکم لے لیا کہ جب تک رت بالغ نہیں ہو جاتیں، جناح ان سے نہیں مل سکیں گے. لیکن اس کے باوجود جناح اور رت نہ صرف ایک دوسرے سے چوری چھپے ملتے رہے بلکہ ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے رہے.

18 سال کی رت

شیلا ریڈی بتاتی ہیں، 'ایک بار دنش نے رت کو ایک خط پڑھتے ہوئے دیکھا. وہ زور سے چلائے کہ اسے ضرور جناح نے لکھا ہے. وہ رت کو پکڑنے کے لئے ایک ڈائننگ ٹیبل کے ارد اور بھاگنے لگے تاکہ وہ اس کے ہاتھوں سے جنا کا لکھا خط چھین لیں لیکن وہ رت کو نہیں پکڑ پائے. '

سر دنش کا واسطہ ایک ایسے بیرسٹر سے تھا جو شاید ہی کوئی مقدمہ ہارتا تھا. دنش جتنے ضدی تھے، طویل عرصے سے عشق کی علیحدگی جھیل رہا یہ شامل ان سے زیادہ ضدی ثابت ہوا. دونوں نے برداشت، خاموشی اور شدت سے رتي 18 سال کے ہونے کا انتظار کیا.

جناح کے ایک اور سوانح نگار پروفیسر شریف امام مجاہد کہتے ہیں کہ 20 فروری، 1918 تو جب رت 18 سال کی ہوئیں تو انہوں نے ایک چھاتے اور ایک جوڑے کپڑے کے ساتھ اپنے باپ کا گھر چھوڑ دیا.
موہن راکیش-انیتا کی وہ محبت کی کہانی

جناح رت کو جامعہ مسجد لے گئے جہاں انہوں نے اسلام قبول کیا اور 19 اپریل، 1918 کو جناح اور رت کا نکاح ہو گیا.

ہندوستانی سماج

رت جناح پر کتاب لکھنے والے خواجہ رضی حیدر کا کہنا ہے کہ جناح امپیریل لےجےسلےٹو کونسل میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کر رہے تھے. اگر وہ سول مےرےج ایکٹ کے تحت شادی کرتے تو انہیں غالبا اپنی سیٹ سے استعفی دینا پڑتا.
اس لئے انہوں نے اسلامی طریقے سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور رت اس کے لئے تیار بھی ہو گئیں. نكاهنامے میں 1001 روپے کا مہر طے ہوا، لیکن جناح نے تحفے کے طور پر رت کو ایک لاکھ پچیس ہزار روپے دیے جو 1918 میں بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی.

جناح کی اپنے سے 24 سال چھوٹی لڑکی سے شادی اس زمانے کے دقیانوسی بھارتی معاشرے کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا.
'سرکاری قید' سے آزاد ہوگی جناح کی آواز

پہلی تقریر: نہرو اور جناح کا فرق

جواہر لال نہرو کی بہن وجيلكشمي پنڈت نے اپنی سوانح عمری دی دائرہ کار آف هےپينےس میں لکھا ہے، "مسٹر جناح کی امیر پارسی سر دنش کی بیٹی سے شادی سے پورے بھارت میں ایک طرح کی تحریک کھڑا ہو گیا. میں اور رت قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں، لیکن ہم دونوں کی پرورش الگ الگ طریقہ سے ہوئی تھی. جناح ان دنوں بھارت کے نامی گرامی وکیل اور ابھرتے ہوئے رہنما تھے. یہ چیزیں رت کو اچھی لگتی تھیں اس لیے انہوں نے پارسی کمیونٹی اور ان کے والد کی مخالفت کے باوجود جناح سے شادی کی. "

رت کی محبت

بھارت نائیٹنگل کے نام سے مشہور سروجنی نائیڈو نے بھی ڈاکٹر سید محمود کو لکھے خط میں جناح کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، "آخرکار جناح نے اپنی خواہش کے نیلے گلاب کو توڑ ہی دیا میں سمجھتی ہوں کہ لڑکی نے جتنی بڑی قربانی دی ہے اس کا اس اندازہ ہی نہیں ہے، لیکن جناح اس کے حق دار ہیں. وہ رت سے محبت کرتے ہیں. ان آٹزم اور گم سم شخصیت کا یہی ایک انسانی پہلو ہے. "
خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ سروجنی نائیڈو بھی جناح کے شائقین میں سے ایک تھیں اور 1916 کے کانگریس اجلاس کے دوران انہوں نے جناح پر ایک آیت بھی لکھی تھی.

جناح کے سوانح نگار ہیکٹر بولتھو نے اپنی کتاب میں ایک بوڑھی پارسی خاتون کا ذکر کیا ہے جس کا خیال تھا کہ سروجنی کو بھی جناح سے عشق تھا، لیکن جناح نے ان کے جذبات کا جواب نہیں دیا. وہ سرد اور الگ تھلگ رہے.

جناح سے محبت

حالانکہ سروجنی ممبئی کی ناٹےگل کے طور پر جانی جاتی تھیں لیکن جناح پر ان ہارمونک گانا کا کوئی اثر نہیں ہوا. میں نے شیلا ریڈی سے پوچھا کہ کیا سروجنی نائیڈو کو بھی جناح سے محبت تھی؟ ان کا جواب تھا، نہیں. لیکن سروجنی ان کی عزت کرتی تھیں.

جناح کے ایک اور بيوگرافر عزیز بیگ نے رتي اور سروجنی نائیڈو کے جناح کے تئیں محبت کا ذکر اپنی کتاب میں ایک مختلف عنوان کے تحت کیا ہے اور اس کا نام انہوں نے دیا ہے، 'ٹو ونسم ومےن.'
عزیز بیگ لکھتے ہیں کہ ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ مردوں کی وجہ سے عورتیں ایک دوسرے کو ناپسند کرنے لگتی ہیں. لیکن سروجنی میں رت کے تئیں جلن کا احساس قطعی نہیں تھا. اصل میں انہوں نے جناح کو رت سے شادی کرنے میں مدد کی.

دل جیتنے کی بات اور ریاستوں کو دھمکی
9
سال 1918 کے اس موسم بہار میں جناح اور رت کے دمکتے اور خوشی سے بھرے چہروں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں.

جناح اور رت

رت کے حسین لچكتے ہوئے بدن پر سرخ اور سنہرے، ہلکے نیلے یا گلابی رنگ کے شفاف پوشاکیں ہوتیں. وہ چاندی اور ماربل کی طویل سگریٹ هولڈرو میں دبی انگریزی سگریٹ کا جب دھا اڑاتي، تو ان کی پروفائل میں چار چاند لگ جاتے.
ویسے بھی ان کی ہر ادا اور ان کی کھنکتی ہوئی بےساختا ہنسی ان کی موجودگی کو اور خوشنما بنا دیتی تھی.
خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ محموداباد کےراجہ امیر احمد خاں کی عمر ساڑھے چار سال کی رہی ہوگی جب جناح اور رت کے سہاگ رات کے دوران ان کے والد کی لکھنؤ کی کوٹھی میں ٹھہرے تھے.
رت سفید رنگ کی سنہرے اور سیاہ سرحد کی ساڑی پہنے ہوئے تھیں اور وہ انہیں ایک پری کی طرح لگ رہیں تھیں. بادشاہ امیر خاں ان سے دوبارہ 1923 میں ملے تھے جب جناح اور رت دہلی کے Mendes کی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے. اس وقت انہوں نے ان کے کھلونے خریدنے کے لیے پانچ سو روپے دیے تھے.
رام لیلا مےدان جناح، جے پی، اندرا سے کجریوال تک
گاندھی کے قتل پر کیا پاک بھی رویا تھا؟

رت اور جناح کے دوست کانجی دوارکا داس نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے، "میں ان سے اپنی آنکھ نہیں ہٹا پاتا تھا اور اس وقت تک ان کی بگھی کو نهارا کرتا تھا جب تک وہ میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو جاتی تھی."

گورنمنٹ ہاؤز

خواجہ رضی حیدر رت جناح کے بارے میں ایک دلچسپ قصہ سناتے ہیں. ایک بار بمبئی کے گورنر ولگٹن نے جناح جوڑے کو کھانے پر بلایا. رت ضیافت میں ایک لے لو کٹ لباس پہن کر گئیں.
جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھیں تو لیڈی ولگٹن نے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ وہ رت جناح کے لئے ایک شال لے آئیں. کہیں انہیں سردی نہ لگ رہی ہو.
یہ سنتے ہی جناح فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے، "اگر مسز جناح کو سردی لگے گی تو وہ شال مطالبہ لیں گی." وہ ورودھسوروپ اپنی بیوی کو ڈائننگ ہال سے باہر لے گئے اور ولگٹن کے رہتے انہوں نے گورنمنٹ ہاؤز کا کبھی رخ نہیں کیا.

10 باتوں میں جانیے نیس واڈیا کو

رت مهپھٹ بھی تھیں. شیلا ریڈی بتاتی ہیں، "1918 میں جب لارڈ چےمسفورڈ نے ان دونوں کو شملہ کے وائسرائے لاج میں ضیافت پر بلایا تو انہوں نے ہاتھ جوڑ کر بھارتی انداز میں وائسرائے کا سلام کیا. ضیافت کے بعد چےمسفورڈ نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے سیاسی کیریئر کو پھلتے-پھولتے دیکھنا چاہتی ہیں جو انہیں وہی کرنا چاہئے جیسے روم میں رہنے والے روم میں کرتے ہیں. رت نے چھوٹتے ہی جواب دیا، اےكسلےسي میں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں. بھارت میں نے بھارتی انداز میں خوش سلام کیا! "

دونوں کی دوریاں

خواجہ رضی حیدر بتاتے ہیں کہ ایک اور موقع پر رت ایک ضیافت میں وائسرائے لارڈ رےڈگ کی اگلے بیٹھی ہوئی تھی.
جرمنی کی بات چل نکلی تو لارڈ رےڈگ نے کہا کہ میں جرمنی جانا چاہتا ہوں، لیکن جنگ کے بعد جرمن ہم برٹےنواسيو کو اب پسند نہیں کرتے ... تو میں وہاں نہیں جا سکتا. رت نے فورا کہا، "اس کے بعد آپ بھارت میں کیا کرنے آئے ہیں (بھارت کے لوگ بھی تو آپ کو پسند نہیں کرتے؟)
آہستہ آہستہ جناح کی مصروفیت اور دونوں کے درمیان عمر کا فرق جناح اور رت کے درمیان فاصلے لے آیا. ان کے پاس اپنی جوان بیوی اور ددھمهي بیٹی کے نخرو کے لئے کوئی وقت نہیں تھا.

جسٹس ایم سی چھاگلا

جناح کے سیکرٹری رہے اور بعد میں بھارت کے وزیر خارجہ بنے ایم سی چھاگلا لکھتے ہیں کہ جب میں اور جناح کسی قانونی مسئلے پر بات کر رہے ہوتے تو رت کچھ زیادہ ہی بن-ٹھن کر آتیں اور جناح کی میز پر بیٹھ کر اپنے پاؤں ہلانے لگتیں کہ جناح کب بات چیت ختم کریں اور وہ ان کے ساتھ باہر نکلیں.

جناح کا جواب

جناح کے منہ سے ناراضگی کا ایک لفظ بھی نہیں نکلتا اور وہ اپنا کام اس طرح کر رہے ہوتے جیسے رت وہاں موجود ہی نہ ہوں.
چھاگلا اپنی سوانح عمری 'روذےذ ان دسمبر' میں ایک اور دلچسپ قصہ وضاحت کرتا ہے، "ایک بار رت ممبئی کے ٹاؤن ہال میں جناح کی شاندار لمبی گاڑی میں آئی. جب وہ گاڑی سے باہر نکلیں تو ان کے ہاتھ میں ایک ٹفن باسکٹ تھی. سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انہوں نے کہا، جے (وہ جناح کو اسی نام سے پکارتی تھیں) سوچو میں آپ کے لئے لنچ میں کیا لائی ہوں. جناح کا جواب تھا مجھے کیا پتہ آپ کیا لائی ہو. اس پر وہ بولیں میں تمہارے پسندیدہ ہیم سینڈوچ لائی ہوں. اس پر جناح بولے مائی گاڈ یہ تم نے کیا کیا؟ کیا تم مجھے انتخابات میں هروانا چاہتی ہو؟ کیا تمہیں نہیں پتہ کہ میں الگ تھلگ مسلمانوں والی سیٹ سے الیکشن لڑ رہا ہوں؟ اگر میرے ووٹروں کو پتہ چل گیا کہ میں لنچ میں ہیم سینڈوچ کھا رہا ہوں تو میرے جیتنے کی توقع رہ جائے گی؟ یہ سن کر رت کا منہ لٹک گیا. انہوں نے فورا ٹفن اٹھایا اور كھٹاكھٹ سیڑھیاں اترتے ہوئے واپس چلی گئیں. "

رضی حیدر کا اندازہ ہے کہ دونوں کے درمیان تنہائی کے سیاسی وجہ بھی تھے. 1926 آتے آتے جناح کا ہندوستانی سیاست میں وہ مقام نہیں رہا تھا جو 1916 میں ہوا کرتا تھا اور انہوں نے فرقہ وارانہ سیاست کا دامن تھام لیا تھا. پھر رت بیمار بھی رہنے لگی تھیں.

رت کا آخری وقت

فرانس میں بیماری کے بعد ہندوستان لوٹتے ہوئے رت نے پانی کے جہاز ایس ایس راجپوتانہ سے جناح کو خط لکھا تھا، "پیارے میرے لئے جتنا بھی تم نے کیا، اس کے لئے آپ کا شکریہ. میں نے تم کو جتنا چاہا ہے، اتنا کسی مرد کو نہیں چاہا گیا ہوگا. تم مجھے اس پھول کی طرح یاد کرنا جسے تم نے توڑا تھا نہ کہ اس پھول کی طرح جسے تم نے کچل دیا تھا. "

20 فروری، 1929 کو صرف 29 سال کی عمر میں رت جناح کا انتقال ہو گیا. ان آخری دنوں میں ان کے دوست کانجی دوارکا داس ان کے ساتھ تھے.

شیلا ریڈی بتاتی ہیں، "کانجی لکھتے ہیں کہ اپنے آخری دنوں میں رت بہت ڈپرےسڈ تھیں. ایک بار میں نے ان سے کہا کہ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں تو انہوں نے بہت كراميي انداز میں کہا تب تک اگر میں زندہ بچی تو ... بعد میں کانجی نے ایک پاکستانی صحافی کو جو ان سے ملنے ممبئی آیا تھا، بتایا کہ رت نے زیادہ مقدار میں سونے کی گولیاں کھا کر خود کشی کی تھی. "

رت کی طبیعت خراب ہونے کی خبر جناح کے پاس اس وقت پہنچی جب وہ دہلی میں ویسٹرن کورٹ میں بیٹھے ہوئے تھے. ان کے پاس ممبئی سے ایک ٹرنک کال آیا. دوسرے سرے پر ان سسر دنش چھوٹے تھے.
گزشتہ دس سالوں میں یہ پہلا موقع تھا جب دونوں کے درمیان کوئی بات ہو رہی تھی. جناح فورا ہی ممبئی کے ٹرین سے روانہ ہو گئے تھے.
راستے میں ہی انہیں وائسرائے اور دوسرے بڑے لوگوں کے غم ٹےلگرام ملنے شروع ہو گئے تھے جس سے انہیں پتہ چل گیا کہ رت اب اس دنیا میں نہیں رہیں. ممبئی اسٹیشن سے وہ براہ راست تلاش کیا قبرستان گئے. وہاں ان کا انتظار کیا جا رہا تھا.

شیلا ریڈی بتاتی ہیں، "جب رت کے جسد خاکی کو قبر میں دفن کرنے کے بعد جناح سے کہا گیا کہ سب سے نزدیکی رشتہ دار ہونے کے ناطے وہ قبر پر مٹی پھینکے تو جناح سبک-سبک کر رو پڑے تھے. یہ پہلی اور آخری بار تھا جب کسی نے جناح کو عوامی طور پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا تھا. "

Wednesday, September 7, 2016

پاکستان کے رام مندر کی کہانیاں Stories of Ram Mandir in Pakistan

Stories of Ram Mandir in Pakistan
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ارد گرد اور پنجاب کے راولپنڈی شہر میں بہت سے تاریخی مندر اور گردوارے موجود ہیں، چاہے تقسیم کے بعد ان کی رونق پہلے جیسی تو نہیں رہی ہے.
یہ جس بھی حالت میں ہیں، ایک کہانیاں بیان کرتے ہیں جسے آثار قدیمہ کی معلومات کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے.

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے آر کے لوجی محکمہ کے پروفیسر سادد عارف کے مطابق اسلام آباد میں پرانے وقت کے تین مندر ہوا کرتے تھے.ایک سےيدپر گاؤں میں تھا. دوسرا راول دھام کے قریب اور تیسرا گولرا کے مشہور دارگڑھ کے پاس ہے.

تقسیم کے بعد ان سب کی نگرانی جیسے تھم سی گئی. سال 1950 کے لیاقت-نہرو معاہدے میں ایسی تمام مقدس مقامات کو 'پناہ گزین سپتتي ٹرسٹ' کے حوالے کیا جانا تھا.لیکن سےيدپر گاؤں اور رام مندر کمپلیکس، جو اسلام آباد کے علاقے میں تقریبا ڈھائی سو سال پہلے بنائے گئے تھے، وہ اسلام آباد کے سی ڈی اے یا کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت ہیں.

اس مندر اور گاؤں کے بارے میں پروفیسر سادد نے راولپنڈی گذےٹير سے کچھ معلومات حاصل کی ہے. اس کے مطابق انگریزوں کے دور میں 1890 میں جب گذےٹير مرتب کیا گیا، تو یہ درج کیا گیا کہ سےيدپر گاؤں تقریبا 1848 میں بس چکا تھا.اس میں رام مندر، گرودوارہ اور ایک دھرم شالہ بھی بنائے گئے تھے، جہاں ہر سال تقریبا آٹھ ہزار افراد مندر کے درشن کے لئے آتے تھے.
پھر تقسیم کے بعد زیادہ تر ہندو بھارت چلے گئے تو یہ ساری جگہوں کو 'دشمن سپتتي' مانتے ہوئے سیل کر دیا گیا.
اسلام آباد کے مٹھی تھارپاركر کے کپل دیو وہاں رام مندر کی دوبارہ مرمت کا مطالبہ کر رہے ہیں.

جرمن این جی او کے لیے کام کرنے والے کپل کہتے ہیں، "جب حکومت لال مسجد، فیصل مسجد اور گرجا گھروں کو تحفظ دے سکتی ہے تو ہمارے مندروں کو کیوں نہیں؟"کپل کی یہ بھی شکایت ہے، "صرف اسلام آباد میں قریب 300 ہندو گھر آباد ہیں، لیکن مندر تو دور کی بات، کوئی کمیونٹی کی تعمیر بھی ہمارے لئے نہیں ہے، اور کسی بھی تہوار یا جنازہ کے لئے ہمیں راولپنڈی جانا پڑتا ہے."

اس رام مندر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ بادشاہ مان سنگھ کے وقت میں 1580 میں بنوایا گیا تھا. تاہم پروفیسر سادد راولپنڈی گذےٹير کے حوالے سے اس بات سے انکار کرتے ہیں.
لیکن ان کا ایسا بھی خیال ہے کہ یہاں پراگیتہاسک دور کی گفاوں بھی ملی ہیں. اس گاؤں میں بھگوان رام اور لکشمن کے نام پر کنڈ ہوا کرتے تھے جو گاؤں والے استعمال کیا کرتے تھے.



سال 2008 میں اسلام آباد کی سی ڈی اے نے اس گاؤں کو 'ورثہ گاؤں' مانتے ہوئے، اس کے تعمیر نو کا کام شروع کیا، تب سے اسے سےيدپر گاؤں کے نام سے جانا جانے لگا.مرگللاه کی پہاڑیوں کے درمیان تاریخ کہ کہانیاں سناتے سےيدپر گاؤں میں ہوٹل کھل گئے ہیں اور مقامی دستکاروں کے لئے بھی روزی روٹی کا راستہ کھل گیا ہے.
اس تعمیر نو میں رام مندر احاطے کی بھی رنگائی پتائی ہوئی ہے لیکن مندر سے مجسمے اٹھا لی گئی ہیں.

سےيدپر گاؤں میں گوشت خوری سرو کرنے والے ہوٹلوں پر تو بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے ہیں، مگر رام مندر احاطے کا نام ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتا.بتوں سے خالی اس مندر کا دروازہ ضرور کھلے ملتا ہے اور یہاں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا ہے کہ 'مندر میں جتے پہن کر آنا منع ہے'.

ہندو کمیونٹی کے پاکستانی رہنما ڈاکٹر رمیش واكواني کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے نئے میئر نے ان سے ستمبر 2016 میں اس مندر احاطے کو دوبارہ تیار کرکے ہندو کمیونٹی کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ہے.ڈاکٹر واكواني کو اس وعدے پر اعتماد ہے، مگر کپل دیو اسے صرف سیاسی وعدہ مانتے ہیں. ان کا خیال ہے کہ واكواني بھی حکمراں پارٹی مسلم لیگ (نواز) سے ہیں، تو یہ سرکاری وعدہ ہے اور ایسے وعدے کم ہی پورے ہوتے ہیں.

کپل کا کہنا ہے، پورے پاکستان میں جتنی بھی ایسی مقدس جگہیں ہیں، ان کی پناہ گزین سپتتي ٹرسٹ کا سربراہ، ایک ہندو ہونا چاہئے، جو ان جگہوں کا مکمل احترام کر سکے اور ان پر غیر قانونی قبضے نہ ہوں.

پاکستانی مصنف ریما عباس نے چند سال پہلے پختونخوا سے تھارپاركر تک، چالیس مندروں پر ایک کتاب - 'هسٹرك ٹےپلس ان پاكستان- اے کال ٹو كشےيس' لکھی ہے.ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں بابری مسجد کے واقعہ کے بعد مندروں پر قبضے کئے گئے تھے، لیکن وہ سب واپس لے لئے گئے ہیں.

ان کا یہ بھی کہنا ہے، "ضرور کچھ مندر ایسے بھی ہیں جو بہت قیمتی سپتتي ہیں. ان میں کچھ لوگوں کی کاروباری نقطہ نظر سے دلچسپی ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے."

Thursday, September 1, 2016

کاغذ کی کتابوں کا زمانہ ڇلا جائے گا؟

جناب ڪٿته هٿوستن ٻي بي سي 
 in UrduBy Kieth Huston of BBC translated from Hindi

کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں. زندگی میں بہت سے رشتے چھوٹ جاتے ہیں میں قتابو سے رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا.
کتابیں آپ دکھ، درد، خوشی، تنہائی کی ساتھی ہوتی ہیں. لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ ہمارے اس دوست کا رنگ ڈھنگ بدلتا جا رہا ہے.

ایک دور تھا جب کتاب ہاتھ میں آتی تھی تو ہم اس کی خوشبو محسوس کرتے تھے. اس کی موجودگی کا احساس ہوتا تھا.
لیکن اب کمپیوٹر پر صرف ایک کلک کیجئے اور آپ کو ڈھیروں کتابیں مل جائیں گی. اب ای-بکس کا زمانہ آ گیا ہے.
آہستہ آہستہ کتابیں سمتل سے نکل کر کمپیوٹر کے کسی آلہ میں سٹور ہونے لگی ہیں. آپ کے پاس اسمارٹ فون ہے، رکن ہے، جلانے ہے، لیپ ٹاپ ہے. ان پر آپ جب چاہیں کوئی بھی کتاب پڑھ سکتے ہیں. اب تو ای لائبریری بھی بن چکی ہے.



یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید گھروں میں بک شےلف رکھنے کا زمانہ گیا. لیکن کتابوں کے شوقین اور ان چھاپنے والے اس سے اتفاق نہیں رکھتے. ان کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ اس دہائی کے آخر تک ڈیجیٹل کتابیں پرنٹنگ والی کتابوں کی جگہ لے لیں گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا.

کتاب کی دکان سے کتابیں خریدنے والوں کی تعداد جو گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل گر رہی تھی، وہ اب بڑھنے لگی ہے. پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ گزشتہ سال ای بک کی فروخت میں کمی دیکھی گئی ہے، وہ بھی پوری دنیا میں.
کتابوں کے اس بدلتے شکل کو لے کر لوگوں کی فکر کوئی نئی بات نہیں. بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے. قدیم روم میں بتوں پر، عمارتوں پر، قبرگاهو پر بڑے بڑے حروف میں پیغام اكےرے جاتے تھے. بعد میں لوگوں نے ان پےغامو کو لکڑی کی سيلو پر لکھ کر تاریخ، فن اور پھلسفي جیسے حصوں میں بانٹ کر لائبریری میں محفوظ رکھنے کا کام شروع کر دیا.

لیکن اس وقت بھی یہ قتابو کی شکل میں سنجو کر نہیں رکھے جاتے تھے. بلکہ مصر میں بننے والے کاغذ جیسے لپیٹے جانے والے پےپارس کے لٹٹھو پر لکھے جاتے تھے. یہ پےپارس خاص طرح کے پلانٹ کی چھال سے بنایا گیا کاغذ ہوتا تھا. یہ بہت پائیدار نہیں ہوتا تھا. اس کی لمبائی ساڑھے چار میٹر سے لے کر سولہ میٹر تک ہوتی تھی.

اتنے لمبے رول پر لکھنا اور اس پڑھنا دونوں ہی مشکل تھا. پڑھنے والے کو اپنے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرنا پڑتا تھا. ایک آدمی کتاب پڑھتا تھا اور دوسرا آدمی اس لپیٹنے کا کام کرتا تھا. پےپارس کے ان لٹٹھو کو محفوظ رکھنا بھی آسان نہیں تھا. ایک مشکل اور بھی تھی سکرال پر ایک ہی طرف لکھا جا سکتا تھا.

دنیا نے پہلی کتاب پہلی صدی کے آس پاس دیکھی تھی. اس دور میں دراصل پےپارس پر جو کچھ لکھا جاتا تھا اس کے دونوں طرف خالی جگہ چھوڑ دی جاتی تھی.

لیکن پہلی صدی میں کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ لکڑی کی جلد بنا کر اس پےپارس کو دو ٹکڑوں میں توڑ اس کے دونوں طرف لکھا جائے. پھر اس کتاب کو درختوں کی چھال کی جلد سے کتاب کی شکل دے دی گئی. ایسا پہلی بار ہوا کہ کوئی لکھی گئی چیز کتاب کی شکل میں سامنے آئی ہو.

روم کے لوگ اسے کوڈیکس کہتے تھے. اس کا ذکر اس دور کے مصنف مارشل کے قصوں میں ملتا ہے. جنہوں نے اپنی کتاب کی خوبيا گناتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ آپ کہیں بھی لے جا سکتے ہیں. آپ سفر کا ساتھی بنا سکتے ہیں.
اس دور میں پےپارس کے سکرال کی جگہ چمڑے سے بنائے جانے والے صفحات نے لے لی تھی. انہیں پارچمےٹ کہا جاتا تھا. یہ پارچمےٹ کافی چکنے ہوتے تھے. جس سے اس پر لکھنا آسان ہوتا تھا. تاہم ہمیں آج یہ نہیں معلوم ہے کہ انہیں پہلی بار پیدا کس نے اور کس لئے تھا؟

پارچمےٹ کو تیار کرنے میں کافی محنت اور وقت بھی لگتا تھا، لیکن یہ پائیدار ذریعہ تھا، کسی کی عبارت کو محفوظ کرنے کی. قتابو کا شوق رکھنے والوں کے لیے یہ کافی بڑی بات تھی. انہیں لانا لے جانا آسان ہوتا تھا. لوگوں کو طویل لمبے کتاب سے نجات مل گئی تھی.

آہستہ آہستہ کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ان پر جلد چڑھانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا. پڑھنے والی کی آسانی کے لئے صفحہ پر نمبر لکھے جانے لگے تھے.


کتابوں کی دنیا میں نئے نئے تجربے كےيے جا رہے تھے لیکن روم اور اس کے آس پاس کے لوگ کوڈیکس کی كھاسيتو کو لے کر آپس میں بٹے ہوئے تھے. روم کی آبادی کا بڑا حصہ جس میں یہودیوں کی کافی تعداد تھی، وہ کتاب کو بہتر مانتے تھے.

لیکن عیسی کے چھٹے صدی آتے آتے رومن سلطنت کا کم و بیش خاتمہ ہو گیا تھا. وہیں یہودیوں کی تعداد بھی کافی گھٹ گئی تھی. ان مقابلے عیسائیوں کی آبادی کافی بڑھ گئی تھی.

دلچسپ یہ کہ یہودیوں کے مقابلے عیسائیوں کو کوڈیکس کافی پسند آئی تھی. تو ایک عیسائی مذہب کی توسیع کے ساتھ ساتھ ہی کوڈیکس کا بھی خوب چلن ہو گیا. پےپارس کی بنا سکرال بہت پیچھے چھوٹ گئے.

کتاب نے اپنی پیدائش سے لے کر اب تک بہت سے دور دیکھے ہیں. ایک گول سے نکل کر دوسرے راؤنڈ میں داخل ہوئی. تمام چیلنجوں کا سامنا کیا.

اب 21 ویں صدی میں ای-بکس کاغذ بکس کی جگہ لیں گی یا اپنی الگ شناخت بنائیں گی، کہہ پانا مشکل ہے.

کیا ٹیکنالوجی نے بھروسہ کمزور کیا ہے؟Has technology weakened trust

ٹیکنالوجی، گیجٹ، انٹرنیٹ سے ہمیں شکایت رہتی ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے. لیکن اندر سے اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ ہماری زندگی ان کی وجہ سے آسان ہو گئی ہے.

It is thought that technology has enslaved us but has technology also made it difficult to trust  each other?

آج آپ کہیں بھی بیٹھ کر اپنا کام آسانی سے کر سکتے ہیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی اسی خوبی نے ہمارے درمیان بھروسے کی ڈور کمزور کر دیا ہے. آپ حیرانی ہو رہی کریں گے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ایک وقت تھا کہ صبح نو بجے سے لے کر شام 5 بجے تک ہی آپ کو آفس میں کام کرنا پڑتا تھا. لیکن نئی ٹیکنالوجی آنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس پابندی سے آزاد ہیں. آج بہت سی کمپنیاں آپ کی سہولت کے حساب سے آفس میں آکر کام کرنے کا موقع دے رہی ہے. کیونکہ آج چوبیس گھنٹے کام کرنے کا زمانہ ہے.



یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ لوگوں کو ایسا موقع مل رہا ہے. لیکن علم اس کو ملازمین کے مفاد میں نہیں دیکھتے. ان کا خیال ہے اس سہولت کے فائدے بہت زیادہ نہیں ہیں. بلکہ، وہ اسے ایک نقصان کے طور پر دیکھتے ہیں. ان کا کہنا ہے آپ کام پر ہر پل نظر رکھی جاتی ہے. بات بات پر میل کر دیا جاتا ہے.

جو بات آپ کو بلا کر زبانی طور پر کہی جا سکتی ہے اس کے لئے بھی میل کر دیا جاتا ہے، لہذا آپ کو کتنی غلطیاں کرتے ہیں اس کا ریکارڈ تیار ہوتا رہے.

میڈرڈ کے بزنس اسکول میں لےكچرر المدےنا كنبانو کہتے ہیں، ہر وقت نیٹ ورک سے منسلک رہنے پر ملازمین پر بھاری دباؤ ہوتا ہے. اس سے آپ منیجر اور آپ درمیان یقین ختم ہونے لگتا ہے. ہم ٹیکنالوجی کے محاذ پر ترقی کرتے جا رہے ہیں. مگر باہمی بھروسے کے محاذ پر روز پچھڑ رہے ہیں.



ان کے مطابق حال یہ ہے کہ آج کی ٹیکنالوجی نے ہمارے اعتماد کو کم و بیش ختم کر دیا ہے. آپ کتنے ہی اچھے ملازم کیوں نہ ہوں، آپ منیجر آپ پر آنکھ موند کر یقین نہیں کرتا.

آکسفورڈ یونیورسٹی کے بزنس سکول کی لیکچرر ریشیل بوٹسمےن کہتی ہیں کی آج کے زمانے میں بھروسے جیسی چیز کی گنجائش ہی نہیں بچی. یہاں کوئی ایک دوسرے پر یقین نہیں کرتا.

امریکہ کے مشہور میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی شےري ٹركل کہتی ہیں آج میسج، ای میل وغیرہ کی طرف لوگوں کا رجحان زیادہ ہو گیا. کم الفاظ میں بس کسی طرح سے اپنی بات کہہ دینے کی جلدی رہتی ہے. اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے امتیازات وخصوصیات کو نظر انداز کر دیتے ہیں. کیونکہ ہمارے اندر ایک دوسرے کی اچھائیوں کو قبول کرنے کے لئے بھی یقین نہیں ہوتا.

ایک دوسرے پر کم ہوتے ایمان کی وجہ سے ہی ہمیں سارا وقت اپنی کرسی پر بیٹھ کر کام کرنا پڑتا ہے. اکثر یہ دکھاوے کے لئے ہوتا تاکہ ہم اپنے باس کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں. بہت سے لوگ کام ختم ہونے کے بعد بھی کمپیوٹر میں جھانکتے رہتے ہیں. وہیں کچھ لوگ کام کرنے کے بہانے سے دفتر میں وقت گزارتے رہتے ہیں. کچھ لوگ جو کام باہر سے کر سکتے ہیں، اس کے لئے بھی آفس میں بیٹھے رہتے ہیں.

آفس کے کام کے ساتھ ساتھ ہمیں بہت سے اپنے ذاتی کام بھی ہوتے ہیں. لیکن ہمیں اپنے مالک سے یہ پوچھنا ڈر لگتا ہے کہ کیا ہم کچھ کام گھر سے کر کے بھیج سکتے ہیں. یا پھر گھر سے کام کرنے پر لوگوں کو اپنی ملازمتوں پر خطرہ منڈلاتا نظر لگتا ہے.

علم مانتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے تمام کمپنیاں اپنے ملازمین چوبیس گھنٹے نگاہ رکھنے کا بھی کام لیتی ہیں.
لندن میں مستقبل ورک سینٹر نے ایک ریسرچ میں پایا کہ لوگوں کو ان کی سہولت کے حساب سے کام کرنے دینے کے ساتھ ساتھ ان پر نظر رکھے جانے سے ایک طرح کی کشیدگی بننے لگتا ہے.

کام کے گھنٹوں میں لچک آ جانے سے بہت سی وائٹ کالر جاب جیسے اکاونٹس اور قانون کے پیشے میں کام کرنے والوں کے لیے خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے. اس عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے بھی لوگ زیادہ سے زیادہ آفس میں رہنا چاہتے ہیں.
ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق تکنیکی طور پر قابل ہو جانے کی وجہ سے مینو فیکچرنگ سیکٹر میں بہت سے کام سمٹ گئے ہیں. اسی طرح سے بہت سے وائٹ کالر جاب میں بھی کمی آ جائے گی.

مثال کے لئے اگر کسی کو کوئی گھر فروخت ہے تو وہ آن لائن ہی ساری معلومات دے سکتا ہے. آن لائن فارم بھر کر وہ اپنا سارا کام کر سکتا ہے. اس کام کے لئے کمپنیوں کو الگ سے ملازم رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی.

اس نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملازمتوں کو لے کر عدم تحفظ کا ماحول بھی بنا ہے. ملازم کو لگتا ہے وہ جتنا وقت آفس میں رہے گا، اس کی موجودگی اس کام بنی رہنے کی ضمانت ہوگی. لیکن اس سے اس کام دینے والے کو نقصان ہوگا.

کسی بھی ملازم کو اگر سہولت کے مطابق کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ زیادہ دل لگا کر کام کرتا ہے. اس کے اچھے ہی نتیجہ آتے ہیں.

ایک ریسرچ کے مطابق اگر آفس میں ملازمین کو تمام سہولیات دی جائیں اور آنندپورن ماحول مہیا کرایا جائے تو ان کے کام میں بارہ فیصد تک بہتری آتی ہے. کام کی لچکدار گھنٹے ہونے کی وجہ سے ملازم اپنا رہن سہن بھی اچھا کر پاتے ہیں.
سپین میں زیادہ تر کمپنیوں میں کام کرنے والے دو گھنٹے کے کھانے کے وقفے کے ساتھ صبح 9 بجے سے شام سات بجے تک کام کرتے تھے. لیکن سپین کی ہی ایک بڑی کمپنی نے اپنے ملازمین کو بغیر کھانے کے وقفے کے صبح کے آٹھ بجے سے دن کے تین بجے تک کام کرنے کا موقع دیا.

نتیجہ کے طور پر کمپنی نے پایا کہ ملازمین کا اعتماد بڑھا ہے. کہا جاتا ہے کسی چیز کو سمجھنے کے لئے اس میں تبدیلی کا لانا ضروری ہے. ملازمین سے اچھا کام کرنے کے لئے بہتر کام کرنے کے ماحول اور سکھ سودھاے دینا ضروری ہے. تاکہ ملازمین کا ان کے وقت پر مکمل کنٹرول رہے.

Tuesday, August 30, 2016

کس کھیل میں آسانی سے مل سکتا ہے گولڈ

برازیل کے ریو شہر میں حال ہی میں اولمپک کھیل ختم ہوئے. بہت سے کھلاڑیوں نے میڈل جیتے. بہتوں کے دل بھی ٹوٹے. آپ نے بھی بہت سے مقابلے دیکھے ہوں گے. آپ کے پسندیدہ کھلاڑی کو تمغہ جیتتے دیکھ کر آپ نے بھی جشن منایا گے. کئی بار کھلاڑیوں کو دیکھ کر لگا ہوگا کہ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں. Usain بولٹ کو دوڑتے دیکھ کر لگا ہوگا کہ اتنی تیزی سے تو آپ کو کئی بار بس پکڑنے کے لئے دوڑے ہوں گے. لمبی چھلانگ والے کھلاڑی کو دیکھ کر بہت لوگوں نے سوچا ہو گا کہ اتنی لمبی چھلانگ تو انہوں نے کئی بار بارش میں بھرا ہوا گڑھے پار کرنے کے لئے لگائی ہوگی. خیر، ریو اولمپکس میں میڈل جیتنے کا موقع تو گیا. جی ہاں، آپ 2020 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس کے لئے ضرور ابھی سے تیاری شروع کر سکتے ہیں. چلئے آپ کو کچھ ایسے کھیلوں سے روبرو کراتے ہیں جن میں آپ کے میڈل جیتنے کے چانس ہیں. اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو، آپ کو نوكايان یا سیلنگ میں قسمت آزما سکتے ہیں.

 اس کے لئے خوش وزن 55 کلو ہونا چاہئے. مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس کشتی خریدنے کے پیسے ہوں. اس میں بہت کم کھلاڑی دلچسپی لیتے ہیں. تو اس کھیل میں آپ نے جیتنے کے کافی چانس ہیں. ضرورت صرف باقاعدہ مشق اور صحیح کوچ ہے. اسی طرح اگر آپ اچھے کپڑے پہننے کے شوقین ہیں تو بھی آپ کو اولمپک میں تمغہ جیتنے کی کوشش کر سکتے ہیں. اولمپکس میں ہارس ڈانسنگ کا مقابلہ ہوتا ہے. جس گھوڑے سے سدھے ہوئے ٹھمکے لگوائے جاتے ہیں. اس کھیل کا نام ہے '' جیسا کہ Dressage ''. اس میں نصب شاندار لباس میں ہوتا ہے. مگر اس کے لئے آپ کو سب سے پہلے ایک گھوڑے کا انتظام کرنا ہوگا. اب چونکہ آپ روز گھوڑے کے ساتھ عمل کرنا ہوگا، تو گھوڑا خریدنا ہی ہوگا. مطلب یہ کہ اس کے لئے آپ کو ایک ملین ڈالر یا پھر قري 68 لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے.

 پھر آپ کو اپنی لباس پر بھی اچھی خاصی رقم لگانی ہوگی. اس کا خرچ بھی قریب بارہ ہزار ڈالر یا یہی کوئی آٹھ دس لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے. پھر آپ کو ایک کوچ بھی چاہیے جو آپ کو اس کھیل کے گر سکھا سکے. اس میں بھی اچھا خاصا پیسہ لگے گا. اگر آپ اتنا انتظام کر سکتے ہیں، تو ٹوکیو اولمپکس میں آپ تمغہ جیتنے کے پورے چانس ہیں. گیٹی ایک کھیل ہے جس میں بہت کم کھلاڑی ہوتے ہیں. یہ ہے ہتھوڑا پھینک دو یا گولہ پھینکنے کا مقابلہ. اس میں ایک بھاری گولے کو تیزی سے گھما کر زیادہ سے زیادہ دور پھینکنا ہوتا ہے. اولمپکس میں کھلاڑی ڈھائی سو فٹ تک گولہ پھینک لیتے ہیں. اس کے لئے باقاعدہ پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے. یہ کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے. آپ اکثر یہ مقابلہ دیکھتے ہوئے ایسا ہی کرنے کی سوچتے ہوں گے! اس کے لئے آپ لوہے کی تار والے بھاری گولوں کا انتظام کرنا ہے. پھر ایک بڑے سے میدان کا انتخاب کرنا ہے. آخر میں ضرورت ایک کوچ کی ہوگی. میدان کا انتظام ہی اس میں سب سے مشکل کام ہے. کیونکہ اکثر کھیل کے میدان میں تمام لوگ موجود رہتے ہیں. ایسے میں اس کھیل کے لئے خالی میدان کے لئے لوگ کئی بار گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں. تو، یہ مقابلہ آپ جیت سکتے ہیں، اگر یہ ضروری چیزیں جٹا لیں. اور اگر یہ سب بھی نہیں کر سکتے، آپ کو پیدل تو روز چلتے ہیں نا؟

 بس اسی کی پریکٹس شروع کر دیجئے. کیونکہ اولمپکس میں پیدل چلنے کا بھی مقابلہ ہوتا ہے. اس صحیح مشق سے آپ تمغہ جیتنے کی کافی امید ہے. پیدل چلنے کا مقابلہ، صدیوں سے ہو رہا ہے. پہلے انگلینڈ میں رئیس لوگ یہ مقابلے کراتے تھے. لوگوں کو گھنٹوں یا کئی دنوں تک پیدل چلاتے رہتے تھے تھک ہار کر پیدل چلتے لوگو کا گرنا دیکھ کر انہیں لطف آتا تھا. آج یہ کھیل اولمپکس میں شامل ہے. آپ کئی کلومیٹر تک مسلسل تیز چال سے چلتے رہنا ہوتا ہے. آپ تیز چل سکتے ہیں مگر دوڑ کر اپنے حریف کھلاڑی سے آگے نہیں نکل سکتے. تو اگر آپ پیدل چلتے ہوئے لوگوں کو شکست دینے کا مادہ رکھتے ہیں، تو یہ کھیل سب سے آسان ہے آپ کے لئے. تاکہ آپ اولمپکس کا میڈل جیت سکیں. اس میں خواتین کو بیس کلومیٹر تک مسلسل تیزی سے پیدل چلنا ہوتا ہے. وہیں مردوں کو بیس سے پچاس کلومیٹر تک واک چال میں اپنا ہنر دکھانا ہوتا ہے. اب اگر آپ کسی جمناسٹ کی طرح لچکدار باڈی کے مالک نہیں ہیں، یا پھر Usain بولٹ کی طرح بجلی کی رفتار سے نہیں دوڑ سکتے ہیں، تو کوئی بات نہیں. پیدل تو روز چلتے ہیں نا؟ بس اسی کے ذریعہ اولمپکس کا میڈل جیتنے کی تیاری شروع کریں.