Saturday, May 13, 2017

ایڈمرل نندا نے یوں کیا تھا کراچی کو 'تباہ'

وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ ایڈمرل ایس ایم نندا
1971 میں بھارت پاکستان جنگ شروع ہونے سے دو ماہ قبل اکتوبر 1971 میں بحریہ صدر ایڈمرل ایس ایم نندا وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے گئے.
بحریہ کی تیاریوں کے بارے میں بتانے کے بعد انہوں نے مسز گاندھی سے پوچھا اگر بحریہ کراچی پر حملہ کرے تو کیا اس سے حکومت کو سیاسی طور پر کوئی اعتراض ہو سکتی ہے.
اندرا گاندھی نے ہاں یا نہ کہنے کے بجائے سوال پوچھا کہ آپ ایسا پوچھ کیوں رہے ہیں؟ نندا نے جواب دیا کہ 1965 میں بحریہ سے خاص طور سے کہا گیا تھا کہ وہ بھارتی سمندری حدود سے باہر کوئی کارروائی نہ کرے، جس سے ان کے سامنے کئی پریشانیاں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں.

اندرا گاندھی نے کچھ دیر سوچا اور کہا، "ویل ایڈمرل، اف دےير از ع وار، دےر از ع وار." یعنی اگر يددھ ہے تو يددھ ہے.
ایڈمرل نندا نے انہیں شکریہ ادا کیا اور کہا، "میڈم مجھے میرا جواب مل گیا."
اندرا گاندھی سے ایڈمرل نندا کی دو ٹوک
اس سے ایک سال پہلے، ایڈمرل نے اس وقت کے مشہور اخبار بلٹذ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا، "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو میں اسے پاکستان کے سب سے بڑے بندرگاہ کراچی تک لے جاؤں گا. میں اس بندرگاہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، کیونکہ میرا بچپن وہاں گزرا ہے. "
1971 میں جب جنگ شروع ہوئی تو ایڈمرل نندا نے اپنا وہ وعدہ پورا کر دکھایا. ایک دسمبر، 1971 کو ایڈمرل نندا نے سيلڈ لفافے کے ذریعہ تمام جنگی کو کراچی پر حملہ کرنے کا حکم دیا.

مکمل ویسٹرن فليٹ دو دسمبر کو ہی ممبئی سے کوچ کر گیا. ان سے کہا گیا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد ہی وہ اس سيلڈ لفافے کو کھولیں. منصوبہ بندی تھی کہ بحری بیڑا دن کے دوران کراچی سے 250 کلومیٹر کے ڈايميٹر پر رہے گا اور شام ہوتے ہوتے اس کے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ جائے گا.
کراچی پر ایسے کیا حملہ
اندھیرے میں حملہ کرنے کے بعد پو پھٹنے سے پہلے وہ اپنی تیز تر رفتار سے چلتے ہوئے کراچی سے 150 کلومیٹر دور آئے گا، تاکہ وہ پاکستانی بمباروں کی پہنچ سے باہر آ جائے.
اور حملہ بھی روس کی اوسا کلاس میزائل بوٹ سے کیا جائے گا. وہ وہاں خود سے چل کر نہیں جائیں گی، بلکہ انہیں نالن کی رسیوں سے کھینچ کر لے جایا جائے گا. ایڈمرل نندا کی اس دکھ بہادر منصوبہ بندی کا بحریہ کے اندر ہی کافی مخالفت ہوئی.

ایڈمرل ایس ایم نندا اپنی سوانح عمری، 'دی مین ہو بمڈ کراچی' میں لکھتے ہیں، "مغربی کمان کے سربراہ وائس ایڈمرل کوہلی نے وزیر دفاع کے سامنے اپنا پرےذےٹےشن دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی بحری جہازوں کے پاس ہم سے زیادہ ہتھیار ہیں اور ان کی فائرنگ صلاحیت بھی ہم بہتر ہے. لیکن ہمارے چیف کا کہنا ہے کہ ہمیں کراچی پر حملہ کرنا ہی ہے. "
نندا نے لکھا ہے، '' کوہلی کے کہنے کا انداز یہ تھا جیسے انہیں کمزور وسائل کے ساتھ کراچی پر حملہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے اور اگر یہ حملہ کامیاب نہیں ہوتا ہے تو اس کے لئے انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے. ''

کتاب کے مطابق، '' وہاں موجود ہر شخص کی نگاہ میری طرف اٹھی، لیکن میں چپ رہا. بعد میں میں نے کوہلی کو بلا کر کہا کہ اگر آپ اس کی منصوبہ بندی سے متفق نہیں ہیں، تو میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں وزیر دفاع کے پاس جا کر کہوں کہ آپ سے مغربی بیڑے کی کمان واپس لے لی جائے. "
بعد میں ایڈمرل کوہلی اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ انہیں جو بھی حکم دیا جائے گا، اسے وہ پورا کریں گے. پہلا حملہ چار دسمبر کی رات کو میزائل بوٹ نپٹ، نرگھٹ اور بہادر نے کیا. انہوں نے نہ صرف پاکستانی ودونسک 'خیبر' اور مائن برش 'محافظ' کو ڈبویا، بلکہ كماري تیل ٹینک میں بھی آگ لگا دی.

دوسرا حملہ آٹھ دسمبر کی رات میں کیا گیا. اس بار اکیلی میزائل بوٹ تباہی، دو فرگےٹس ترشول اور تلوار کے ساتھ گئی. تباہی سے میزائل فائر کرنے کی ذمہ داری لیفٹیننٹ کمانڈر فتح جےرتھ کی تھی.
جےرتھ یاد کرتے ہیں، "میں نے اپنی آخری میزائل كماري تیل ٹینکوں پر چھوڑی. آپریشن ختم ہوتے ہی میں نے اپنے کمانڈنگ افسر کو پیغام بھیجا، 'فور پجس ہیپی ان دی گھوںسلا. رجنگ.' جیسے ہی میں نے اوپر آنے لگا، ان کا جواب آیا، 'اس سے اچھی دیوالی ہم نے آج تک نہیں دیکھی.' جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا، اس منظر کو میں آپ کو بتا نہیں سکتا. "
غازی کے ڈوبنے کا کیا تھا اصلی سچ؟
"آپ اسے خوفناک کہہ سکتے ہیں، خوفناک کہہ سکتے ہیں. شمال سے لے کر پہلے تک سارے افق میں آگ لگی ہوئی تھی اور آگ کی لپٹیں 40، 60 ڈگری اوپر تک اٹھ رہی تھیں. سچ بتاؤں میرے لئے یہ خوشی کی بات نہیں تھی . ایک سیکنڈ کے لئے تو میں وہیں جم کر رہ گیا. پھر میں نے دوسری طرف اپنا منہ کر لیا. یہ خوشگوار منظر نہیں تھا. "
پاکستان کو ایسے دیا جھانسہ

ایڈمرل نندا کا ایک اور غیر معمولی خیال تھا کہ کوئی بھی ہندوستانی جہاز بندرگاہ میں لنگر ڈالے نہ رہے تاکہ پاکستانی پنڈببيا انہیں اپنا نشانہ نہ بنا سکے.
بھارتی بحریہ کے سابق افسر اور ایڈمرل نندا کے بھانجے کمانڈر ارون سہگل یاد کرتے ہیں، 'جب جنگ چھڑی تو ہم کراچی سے 150 کلومیٹر جنوب میں تھے. ایک جگہ پر تمام منصوبہ بندی کی جا رہی تھی. خفیہ خبریں آ رہی تھیں. "
"ابھی حال ہی میں را کے افسر کی ایک کتاب شائع ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ نوسےنك حکام نے ایڈمرل نندا سے کہا کہ سر آپ تو یاد ہے کہ کراچی بندرگاہ کس طرح کا ہے. لیکن ہمیں کراچی بندرگاہ کی تصاویر چاہئے. ''
کتاب کے مطابق، '' ایڈمرل نندا نے دو فوٹوگرافرو کو ایک مرچنٹ جہاز میں کراچی بھیجا. جہاز کے ڈاکٹر سے کہا گیا کہ آپ انہیں مریض بنا کر اپنے ساتھ لے جائیے. انہوں نے کراچی پورٹ پر اتر کر فوٹو لیں اور دبئی ہوتے ہوئے واپس بھارت لوٹے. میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ تصاویر دیکھی ہیں. اس طرح کی چیزوں کی پلاننگ چھ سات مہینوں سے ہو رہی تھیں. "
'اف دےر از ع وار، دےر از ع وار'
ایڈمرل نندا نے 1971 میں دوسرا بڑا کام کیا بھارتی ومانواهك جہاز آئی این ایس وكرات کو پاکستانی آبدوزوں سے بچانے کا. انہوں نے وكرات کو انڈمان میں تعینات کیا اور پاکستانیوں کی آنکھ میں دھول جھونکی کہ وہ وشاکھاپٹنم میں کھڑا ہوا ہے.
اس وقت مشرقی بیڑے کے كماڈگ افسر ایڈمرل کرشنن اپنی سوانح عمری 'بیچنے والے کی کہانی' میں لکھتے ہیں، "وشاکھاپٹنم میں ہم نے كاٹرےكٹرس کو خوب سارے راشن کا آرڈر دیا ... خاص طور سے گوشت اور سبزیوں کے. مقصد تھا کہ یہ خبر پھیلے کہ وكرات وشاکھاپٹنم میں کھڑا ہے. مجھے امید تھی کہ وہاں گھوم رہے پاکستانی جاسوس ان افواهو کو پاکستان تک پہنچائیں. "
فتح جےرتھ

"یہی نہیں میں نے انز راجپوت کو وكرات کے جھانسے کے طور پر استعمال کیا. اس کو ہم نے وشاکھاپٹنم سے 160 کلومیٹر دور بھیج دیا. اس کو خوب سارے سگنل دیے گئے اور اس کو کھل کر استعمال کرنے کے لئے کہا گیا. ''
انہوں نے لکھا ہے، '' ہیوی سگنل ٹریفک کا مقصد تھا پاکستانیوں کو اشارہ دینا کہ یہاں ایک بڑا جہاز کھڑا ہے. ہم نے جان بوجھ کر وكرات کے ایک سیلر سے ایک پرائیویٹ ٹےلگرام کروایا جس میں اس نے اپنی شدید بیمار ماں حال چال پوچھا. "
"اس سب کا نتیجہ یہ رہا کہ کراچی سے پاکستانی آبدوز غازی کے لئے پیغام بھیجا گیا، 'خفیہ اطلاعات بتا رہی ہیں کہ کیریئر بندرگاہ پر کھڑا ہے.' نتیجہ یہ ہوا کہ پی این ایس غازی اس ٹوہ میں وہاں پہنچی. اس میں دھماکہ ہوا اور وہ وہیں ڈوب گئی. "
اس جنگ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ نے اپنا ساتواں بیڑا خلیج بنگال میں بھیجنے کا فیصلہ کیا. ایڈمرل ایس ایم نندا اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، "وزیر اعظم نے مجھے بلا کر پوچھا کہ کیا آپ نے یہ خبر سنی ہے کہ امریکہ کا ساتواں بیڑا خلیج بنگال میں آ رہا ہے؟ میں نے کہا، 'جی ہاں.'"
اس طرح سے ہوئی تھی تیاری
"انہوں نے پوچھا، 'تم کیا کرنے جا رہے ہیں؟' میں نے جواب دیا، 'کیا آپ سمجھتی ہیں امریکہ بھارت کے ساتھ جنگ ​​کرنا چاہتا؟ اگر وہ ہمارے بحری جہازوں پر حملہ کرتے ہیں تو یہ جنگ کی کارروائی ہوگی.' تب وہ بولي، 'کیا کیا جانا چاہئے؟'
میں نے جواب دیا، 'میڈم وہ ہم پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن ہمیں یقین رکھیں گے. میں اپنے جلپوتو کے کپتانوں کو حکم دے رہا ہوں کہ اگر ان کا سامنا امریکی جہازوں سے ہو تو وہ اپنی اڈےٹٹيذ ایکسچینج کریں اور انہیں اپنے برتن پر مشروبات کے لئے مدعو کرے. '
وہ ہنسنے لگیں. میں نے پھر ایڈمرل کرشنن سے کہا کہ ہمارے سارے جنگ جہاز کو اس بارے میں بتا دیا جائے. "
ارون سہگل

ایڈمرل نندا کی شخصیت کی خوبی تھی اس ماونيي طرف. وہ چھوٹے سے چھوٹے نااخت کی رائے لیتے اور اس کا حال چال پوچھتے.
ان نزدیک سے جاننے والے وائس ایڈمرل ایس کے چاند یاد کرتے ہیں، "مجھے یاد ہے 1968 میں میں نے لیفٹیننٹ کمانڈر تھا اور ممبئی میں تعینات تھا اور نندا پرچم افسر کمانڈنگ ان چیف تھے وائس ایڈمرل کے طور پر. ''
'' میں نے ان سے کہا کہ میری بیوی اور میں آپ کو گھر میں کھانے پر بلانا چاہتا ہوں. انہوں نے کہا، میں ضرور آؤں گا اور ایک ہفتے بعد وہ اپنی بیوی سمیت میرے گھر پر آئے اور ہمارے ساتھ رات کا کھانا کھایا. "
ایڈمرل نندا کو ہر چھوٹی چیز جو خراب ہو جاتی تھی، اس کو ٹھیک کرنے کا شوق تھا. ارون سہگل یاد کرتے ہیں، "وہ سب سے چھوٹا کام اپنے آپ کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے. ''
انہوں نے کہا، '' میں دیکھا کرتا تھا کہ وہ کچن میں جاکر پلیٹوں کو خود دھو صفائی سے لگایا کرتے تھے. گھر کی مکسی یا ٹیپ ریکارڈر خراب ہوتا تھا تو اس کو ٹھیک کرنے کا بیڑا بھی ایڈمرل نندا اٹھاتے تھے. "
"ایک بار میں ان کے ڈیفنس کالونی والے گھر گیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ وہ اپنے سونے کے کمرے کے دروازے اپنے ہاتھ سے پینٹ کر رہے ہیں اور ان کے تمام جسم پر سفید پینٹ لگا ہوا ہے. ہم لوگ خوفزدہ کرتے تھے کہ کہیں ان کے گھر کے سامنے ہماری کار نہ خراب ہو جائے. اگر ایسا ہوتا تو وہ اس کا ایک ایک پرزہ کھول ڈالتے. "
بحریہ کے لوگ انہیں اس بات کے لئے بھی یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے نیوی میں شارٹس پہننے اور داڑھی نہ رکھنے کا چلن بند کروایا. ایڈمرل چاند یاد کرتے ہیں، "برطانوی نیوی کے زمانے سے ہمارے یہاں روایت چلی آ رہی تھی کہ ہم لوگ شارٹس پہنتے تھے. ایڈمرل نندا نے ہمیں اختیار دے دیا کہ آپ چاہے تو شارٹس پہن لو یا پھر فل پتلون."
قوانین کو آسان بنایا
ہم لوگ یہ فیصلہ سن کر بہت خوش ہوئے کیونکہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ہماری ٹاںگے پتلی ہونے لگتی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی انہیں دیکھے. دوسری چیز جب ہمارے راجپوت فوجی اپنے گھر جاتے تھے تو انہیں اپنی داڑھی بڑھانی پڑتی تھی کیونکہ بحریہ میں داڑھی بڑھانے کی اجازت نہیں تھی.
وہ دس پندرہ دن اپنے گھر نہیں جاتے تھے کہ اس وقت تک ان موچھے یا داڑھی نکل آئے. جب ایڈمرل نندا کو یہ پریشانی بتائی گئی تو انہوں نے داڑھی نہ رکھنے کے قوانین کو تبدیل کر دیا.
امیتا مہرا

ایڈمرل نندا کو عورتوں کو رجھانے کے فن بھی بخوبی آتی تھی. ایک بار فيلڈمارشل سیم مانےكش نے انہیں خط لکھ کر کہا تھا کہ اس معاملے میں آپ میرے مالک ہیں.
ایڈمرل نندا کی نواسی امیتا مہرا بتاتی ہیں، "ان کی سب سے اچھی دوست میری نانی کی دوست ہوا کرتی تھیں. وہ لیڈیز مین تھے. انہیں وہ سارے چالوں پتہ تھے جس عورتیں خوش ہوتی تھیں. ''
انہوں نے کہا، '' کسی عورت کی تعریف کر جادو کر دینا ان بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. وہ انہیں گلے لگانے اور ہاتھ ملاتے. انہیں رقص کرنے کا بہت غم تھا اور تمام عورتیں ان کے ساتھ رقص کرنے کے لئے بیتاب رہتی تھیں. "

بھارتی بحریہ کو خود کفیل بنانے میں بھی ایڈمرل نندا کی بہت بڑی کردار تھا. یہ ان کی دوردرشتا کا نتیجہ تھا کہ آج بھارتی بحریہ 'بیارس نیوی' سے 'بلڈروں نیوی' بن گئی ہے.
ایڈمرل ایس کے چاند کہتے ہیں، "ایڈمرل نندا نے جب دیکھا کہ ہم باہر سے برتن منگوا رہے ہیں تو انہوں نے ليےڈر پراجیکٹ شروع کروایا مذگاو دستاویزات میں. شروع میں ڈیزائن انہوں نے برطانیہ سے لیا. بعد میں انہوں نے بھارتی ڈیزائنرز کو بہت فروغ دیا. ''
انہوں نے کہا، '' اب حالات یہاں تک ہو گئے ہیں کہ ہم ومانواهك بھی اپنے یہاں بنا سکتے ہیں. پنڈببيا اب بھی ضرور باہر سے آتی ہیں لیکن باقی تمام جہاز یہیں ڈیزائن ہوتے اور بنتے ہیں. اس کی شروعات نندا صاحب نے کی تھی. "

No comments:

Post a Comment